بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

خطبہ کو گانے کے انداز میں پڑھنا جائز نہیں


سوال

جمعہ کا خطبہ خصوصًا خطبۂ ثانیہ گا گا کر لہجہ میں پڑھنا چاہیے  جیسا کہ آج کل اس کا رواج ہوچکا ہے یا بغیر لہجے  کے پڑھنا چاہیے؟ حوالہ جات کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں !

جواب

خطبہ جمعہ دو طریقے سے دیا جاتا ہے، ایک طریقہ بغیر لہجہ کے بیان کے انداز میں ہوتا ہے جب کہ دوسرا طریقہ لہجے کے  ساتھ جیسا کہ قرآن پڑھا جاتا ہے اور  خطبہ میں زیادہ تر مضامین قرآن و حدیث کے ہوتے ہیں،  لہذا یہ دونوں طریقے شرعًا  درست ہیں، اور ہر خطیب کا اپنا اپنا ذوق ہے، لہذا  اگر سائل کا مقصد خطبہ گاگا کر لہجہ میں پڑھنے سے وہ ہے  جیسا کہ قرآن کا لہجہ ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور  اس کو  گاگا کر پڑھنے کا کہنا مناسب نہیں ۔  لیکن اگر کوئی خطیب  اس کو  واقعی موسیقی کے طرز پر  پڑھتا ہے تو  اس طرح پڑھنا منع ہے،  اس سے بچنا چاہیے۔

مشکوۃ المصابیح میں ہے:

"وعن حذيفة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «اقرؤوا القرآن ‌بلحون ‌العرب وأصواتها وإياكم ولحون أهل العشق ولحون أهل الكتابين وسيجي بعدي قوم يرجعون بالقرآن ترجع الغناء والنوح لا يجاوز حناجرهم مفتونه قلوبهم وقلوب الذين يعجبهم شأنهم» . رواه البيهقي في شعب."

(‌‌كتاب فضائل القرآن،‌‌باب آداب التلاوة ودروس القرآن،الفصل الثالث،ج:1،ص:675،رقم الحدیث:2207،ط:المكتب الإسلامي)

ترجمہ: قرآن مجید کو عربوں کے لہجے  اور آواز میں پڑھا کرو (یعنی ترنم پیدا کرنے کے لیے  بہت زیادہ تکلف نہ کیا کرو) اور  اہلِ  کتاب و فساق  کی آوازوں  اور لہجوں سے اپنے آپ کو بچاؤ ،  میرے بعد  عنقریب ایسے لوگ آئیں گے جو  قرآن کو گانوں، پادریوں،  اور  رونے والی آوازوں کی طرح پڑھیں گے، قرآن اُن کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا ،  ان کے دل فتنے والے ہوں گے،  اور ان لوگوں کے دل بھی فتنہ زدہ ہوں گے جنہیں یہ (قاری)  اچھے لگتے ہوں گے۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144505102069

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں