میرا سوال یہ ہے کہ بینک کی نوکری جو مجبوری کی حالت میں جائز ہے وہ کن حالات میں ہے، اور کون سے حالات میں جائز نہیں ہو گی؟
1۔ ایک شخص کے پاس اگر ایک سے دو سال تک کی گھریلو خرچ کے لیے رقم ہو تو کیا اس کے لیے بھی بینک کی نوکری جاری رکھنے کی گنجائش ہے؟
2۔ ایک شخص کے پاس اتنی رقم ہو کہ وہ ایک انتہائی چھوٹے پیمانے پر کم نفع والا ہی سہی کوئی کاروبار شروع کرسکے، تو کیا وہ بھی مجبوری کے تحت گنجائش کا مستحق ہوگا؟۔ ان دونوں شخص کو کیا کرنا چاہیے؟ ان دونوں صورتوں میں جائز عمل کیا ہو سکتا ہے؟ اور تقویٰ کا بھی بتا دیجیے۔
قرآنِ کریم اور احادیثِ مبارکہ میں سود کی حرمت اور مذمت بڑی سختی سے بیان کی گئی ہے، لہٰذا قرآن و حدیث کی رو سے سود لینا، دینا، سودی معاملہ لکھنا ،اس میں گواہ بننا اور تعاون کرنا سب ناجائز اور حرام ہے،البته اگرپیسے نہ ہونے کی وجہ سے اتنی مجبوری اور اضطراری حالات پیدا ہوجائیں کہ سودی نوكری کے بغیر زندگی گزارنا ہی مشکل ہو ،یعنی جان کا خوف ہو،یا عزت کو شدید خطرہ ہو تو ان حالات میں بامر مجبوری بینک میں نوکری کرنے کی گنجائش ہوگی بشرطیکہ ساتھ ساتھ جائز ملازمت بھی تلاش کرتا رہے ،اوراگراس درجہ کی اضطراری حالات نہ ہوں توبینک میں نوکری کرنے کی گنجائش نہیں ہوگی۔
1:لہذااگرکسی شخص کے پاس ایک سے دو سال تک کی گھریلو خرچ کے لیے رقم موجودہو تو اس کے لیے بینک کی نوکری جاری رکھنے کی گنجائش نہیں ہے۔
2:اسی طرح اگرکسی شخص کے پاس اتنی رقم ہو کہ وہ ایک انتہائی چھوٹے پیمانے پر کم نفع والا ہی سہی کوئی کاروبار شروع کرسکتاہے، تو بھی ایسے شخص کے لیے بینک کی نوکری جاری رکھنے کی گنجائش نہیں ہے ۔
حدیث مبارک میں ہے:
"عن جابر رضي الله عنه قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم أكل الربا وموكله وكاتبه وشاهديه وقال: هم سواء . رواه مسلم."
(صحيح المسلم، کتاب المساقات، ٣/ ١٢١٩، ط: دار احیاء التراث۔ مشكاة المصابيح، كتاب البيوع، باب الربا، الفصل الأول، ٢/ ٨٥٥، ط: المكتب الإسلامي)
"ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی سود کھانے والے، سود کھلانے والے، اور سود کے معاملے کو لکھنے والے اور اس میں گواہ بننے والے پر اور فرمایا: یہ سب گناہ میں برابر ہیں۔"
مشكاة المصابيح میں ہے:
"وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الربا سبعون جزءا أيسرها أن ینکح الرجل أمه»."
(كتاب البيوع، باب الربا، ٢/ ٨٥٩، ط: المكتب الاسلامي)
ترجمہ: "حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: سود (میں) ستر گناہ ہیں، سب سے ہلکا گناہ ایسے ہے جیسے مرد اپنی ماں سے زنا کرے۔"
الأشباه والنظائر میں ہے:
"وتتعلق بها قواعد: الأولى: الضرورات تبيح المحظورات....الثانية: ما أبيح للضرورة يقدر بقدرها."
(الفن الاول ، القاعدۃ الخامسۃ ص نمبر ۷۳،دار الکتب العلمیۃ)
غمز عيون البصائر في شرح الأشباه والنظائر میں ہے:
"«القاعدة الرابعة عشرة: ما حرم أخذه حرم إعطاؤه.
1 - كالربا ومهر البغي وحلوان الكاهن والرشوة وأجرة النائحة والزامر، إلا في مسائل.
2 - الرشوة لخوف على ماله أو نفسه أو ليسوي أمره عند سلطان أو أمير
قوله: الرشوة لخوف على ماله إلخ. هذا في جانب الدافع أما في جانب المدفوع له فحرام ولم ينبه عليه كذا قيل. أقول: إنما لم ينبه عليه لظهوره إذ لا ضرورة في جانب المدفوع له، وينبغي أن يستثنى الأخذ بالربا للمحتاج فإنه لا يحرم كما صرح به المصنف - رحمه الله - في البحر، ويحرم على الدافع الإعطاء بالربا."
(الفن الاول، النوع الثانی من القواعد، القاعدۃ الرابعۃ عشرۃ ج نمبر ۱ ص نمبر ۴۴۹، دار الکتب العلمیۃ)
فتاوی محمودیہ میں ہے:
"میں پرائمری اسکول کا ماسٹر ہوں ، پانچ بچے ہیں، والدہ ہیں ، گھر کی ضروریات کے لئے سودی قرض لیتا ہوں، ہر وقت دل پریشان رہتا ہے، حتی کہ دین کے کاموں کو بھی اچھی طرح سے نہیں ادا کر پاتا۔ ایسی حالت میں اپنا ذریعہ معاش ٹھیک کرنے کے لئے سرکار سے صنعتی قرحہ لے سکتا ہوں یا نہیں ؟ جس میں کچھ سود بھی قسطوں میں ادا کرنا پڑے گا ، ایسی صورت میں میرے لیے گنجائش ہے یا نہیں؟
الجواب حامدا و مصلیا:
سود لینا اور سود دینا حرام ، اگر گزارہ کی کوئی صورت نہ ہو تو محتاج کے لئے بقدر ضرورت سودی قرض لینے کی گنجائش ہے۔"
(کتاب البیوع باب الربا ج نمبر ۱۶ ص نمبر ۳۰۲، جامعہ فاروقیہ)
فتاوی محمودیہ میں ہے:
"سود دینا حرام ہے، ایسے شخص پر حدیث شریف میں لعنت آئی ہے، حرام کا ارتکاب اضطرار کی حالت میں معاف ہے، پس اگر جان کا قوی خطرہ ہے یا عزت کا قوی خطرہ ہے، نیز اور کوئی صورت اس سے بچنے کی نہیں، مثلا: جائے داد فروخت ہوسکتی ہے، نہ روپیہ بغیر سود کے مل سکتا ہے تو ایسی حالت میں زید شرعاً معذور ہے۔ اور اگر ایسی حالت نہیں، بلکہ کسی اور دنیوی کاروبار کے لیے ضرورت ہے یا روپیہ بغیر سود کے مل سکتا ہے یا جائیداد فروخت ہوسکتی ہے تو پھر سود پر قرضہ لینا جائز نہیں، کبیرہ گناہ ہے۔ "
(کتاب البیوع باب الربا ج نمبر ۱۶ ص نمبر ۳۰۵، جامعہ فاروقیہ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144608100134
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن