اگر پانی کی دو ٹینکیاں ایک ساتھ متصل بنائی گئی ہوں اور دونوں ٹینکیاں چاروں طرف سےپانچ گز یعنی 5x5(ایک گز تین فٹ کا ہے)کی ہوں اور ان دونوں کے درمیان میں چار یا پانچ انچ کا سوراخ کیا گیا ہو، تاکہ پانی دونوں میں آتا جاتا رہے، لیکن دونوں کا ڈھکن الگ الگ ہے اور صفائی ستھرائی بھی الگ الگ ہوتی ہے، البتہ پانی بھرنے کا پائپ ایک ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ صرف اس چار یا پانچ انچ کے سوراخ کی بناء پر ایک شمار ہوکر اس پر شرعی ٹینکی کا اطلاق ہوسکتا ہے یا نہیں؟
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ دونوں ٹینکیاں چاروں طرف سے پانچ گز یعنی 5x5(ایک گز تین فٹ کا ہے)کی ہیں تو ان میں سے ہر ایک ٹینکی دہ در دہ ہے؛ کیوں کہ ایک گز دو ہاتھ کا ہوتا ہے اور ٹینکی یا حوض کے دہ در دہ ہونے کے لیے اس کی وسعت طول وعرض میں پانی کی سطح کا رقبہ چالیس ہاتھ(225 اسکوائر فٹ) ہونا ضروری ہے اور یہاں دونوں ٹینکیوں میں سے ہر ایک چالیس ہاتھ کی ہے،تو یہ ماء جاری کےحکم میں ہے اور ماء جاری میں اگر نجاست گرجائےاوراس نجاست کااثرپانی میں ظاہرنہ ہو(یعنی ان تین اوصاف رنگ ،بواورمزہ میں سےکوئی ایک وصف تبدیل نہ ہو)تووہ ٹینکیاں پاک ہیں، ورنہ نہیں، باقی اگر کوئی ٹینکی پانچ گز کی نہ ہو تو بیچ میں دیوار ہونے کی وجہ سے ان دونوں کو ایک شمار نہیں کیا جائے گا، اگر چہ دونوں کے درمیان چار یا پانچ انچ کا سوراخ کردیا جائے۔
الاختیار لتعلیل المختار میں ہے:
"والماء الراكد إذا وقعت فيه نجاسة لا يجوز به الوضوء إلا أن يكون عشرة (ف) أذرع في عشرة.
"(و) أما (الماء الراكد إذا وقعت فيه نجاسة لا يجوز الوضوء به) لقوله عليه الصلاة والسلام: «لا يبولن أحدكم في الماء الدائم ثم يتوضأ منه أو يشرب ، قال: (إلا أن يكون عشرة أذرع في عشرة أذرع) ، والأصل أن الماء القليل ينجس بوقوع النجاسة فيه والكثير لا، لقوله عليه الصلاة والسلام في البحر: «هو الطهور ماؤه» واعتبرناه فوجدناه ما لا يخلص بعضه إلى بعض. فنقول: كل ما لا يخلص بعضه إلى بعض لا ينجس بوقوع النجاسة فيه، وهذا معنى قولهم لا يتحرك أحد طرفيه بتحرك الطرف الآخر، وامتحن المشايخ الخلوص بالمساحة فوجدوه عشرا في عشر فقدروه بذلك تيسيرا."
(كتاب الطهارة، حكم الماء الراكد إذا وقعت فيه نجاسة، ج:1، ص:14، ط: دار الكتب العلمية)
فتاوی شامی میں ہے:
"وألحقوا بالجاري حوض الحمام لو الماء نازلا والغرف متدارك، كحوض صغير يدخله الماء من جانب ويخرج من آخر يجوز التوضؤ من كل الجوانب مطلقا، به يفتى۔۔۔۔۔۔۔۔في النهر: وأنت خبير بأن اعتبار العشر أضبط ولا سيما في حق من لا رأي له من العوام، فلذا أفتى به المتأخرون الأعلام: أي في المربع بأربعين، وفي المدور بستة وثلاثين، وفي المثلث من كل جانب خمسة عشر وربعا وخمسا بذراع الكرباس، ولو له طول لا عرض لكنه يبلغ عشرا في عشر جاز تيسيرا".
(كتاب الطهارة، باب المياه، ج:1، ص:190/192، ط: سعيد)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"والمعتبر ذراع الكرباس. كذا في الظهيرية وعليه الفتوى. كذا في الهداية وهو ذراع العامة ست قبضات أربع وعشرون أصبعا. كذا في التبيين".
(كتاب الطهارة، الباب الثالث في المياه، الفصل الأول فيما يجوز به التوضؤ، ج:1، ص:18، ط: دار الفكر)
حلبی کبیر میں ہے:
"وإذا كان الحوض عشرا في عشر فهو كبير لا يتنجس بوقوع النجاسة مطلقا".
(فصل في الحياض، ص:98، ط: سهيل اكيڈمي، لاهور)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144607100301
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن