بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

کیا حج اور عمرہ کرنا بہتر ہے یا غریب پڑوسی کی مدد کرنا بہتر ہے؟


سوال

ایک شخص جو صاحب استطاعت ہو حج یا عمرہ کرنا چاہتا ہو اور اس کے رشتے دار یا پڑوسی بھوکے ہوں،  کیا ان کو اس پیسوں سے حج یا عمرہ کرنا چاہیے یا غریب کو روٹی، کیوں کہ میں نے سنا ہے زکوٰۃ   حج سے پہلے ہے؟

جواب

واضح رہے کہ زندگی میں ایک مرتبہ حج کرنا صاحبِ  استطاعت  پر فرض ہے، حج  فرض کی استطاعت  ہو تو انسان  کو اس میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے، بغیر عذر تاخیر مکروہ ہے۔ حج فرض کی ادائیگی کے بعد جتنے حج کرے گا وہ نفل ہوں گے، اور نفل امور میں انسان کو  اختیار ہے کہ  وہ کون سے نفل کام کو انجام دینا چاہ رہا ہے، لیکن اگر کسی جگہ حج نفل کے بجائے صدقہ  کرنے اور کسی   مجبور کی مدد کی ضرورت ہو تو ان  امور کو احوال واقعی اور ضرورت کی بناء  مقدم  رکھتے ہوئے حج نفل کے بجائے صدقات وغیرہ کی طرف جانا چاہیے، لیکن اگر کسی کی استطاعت اور حیثیت  دونوں نوافل کو  انجام دینے کی ہو تو دونوں بھی کیے جاسکتے ہیں۔ نیز  چوں کہ دونوں  ہی نفلی امور ہیں، لہذا کسی ایک کے کرنے پر دوسرے کے نہ کرنے کی بنا پر اس کو تنقید اور لعن و تشنیع کا نشانہ بنانا درست نہیں ، دونوں ہی مہتم بالشان اعمال ہیں، اس لیے  جہاں جس کام کی  وقت کے اعتبار سے ضرورت ہو ان کو مقدم کرنا چاہیے، لہذا اگر اہل  حقوق رشتے دار ، پڑوسی   بھوکے ہوں  اور ضرورت مند ہو یا ان  کی فوری درجے کی کوئی حاجت  پیش آجائے تو اس کو پورا کرنا چاہیے، یہ نفلی حج اور عمرے  سے بڑا اجر والا کام ہوگا۔

البحر الرائق  میں ہے:

"وأما أبو حنيفة وأبو يوسف فقالا: الاحتياط في تعيين أول سني الامكان لان الحج له وقت معين في السنة والموت في سنة غير نادر فتأخيره بعد التمكن في وقته تعريض له على الفوات فلا يجوز."

(البحر الرائق: كتاب الحج، ج:2 ص:542، ط: دار الكتب العلمية)

منحۃ الخالق  حاشیۃ البحر الرائق میں ہے:

"(قوله: فقالوا حج النفل أفضل من الصدقة) قال الرملي قال المرحوم الشيخ عبد الرحمن العمادي مفتي الشام في مناسكه وإذا حج حجة الإسلام فصدقة التطوع بعد ذلك أفضل من حج التطوع عند محمد والحج أفضل عند أبي يوسف وكان أبو حنيفة - رحمه الله - يقول بقول محمد فلما حج ورأى ما فيه من أنواع المشقات الموجبة لتضاعف الحسنات رجع إلى قول أبي يوسف اهـ.قلت قد يقال إن صدقة التطوع في زماننا أفضل لما يلزم الحاج غالبا من ارتكاب المحظورات ومشاهدته لفواحش المنكرات وشح عامة الناس بالصدقات وتركهم الفقراء والأيتام في حسرات ولا سيما في أيام الغلاء وضيق الأوقات وبتعدي النفع تتضاعف الحسنات ثم رأيت في متفرقات اللباب الجزم بأن الصدقة أفضل منه وقال شارحه القاري أي على ما هو المختار كما في التجنيس ومنية المفتي وغيرهما ولعل تلك الصدقة محمولة على إعطاء الفقير الموصوف بغاية الفاقة أو في حال المجاعة وإلا فالحج مشتمل على النفقة بل وزاد إن الدرهم الذي ينفق في الحج بسبعمائة إلخ قلت قد يقال ما ورد محمول على الحج الفرض على أنه لا مانع من كون الصدقة للمحتاج أعظم أجرا من سبعمائة."

(البحر الرائق: كتاب الحج، ج:2 ص:544، ط: دار الكتب العلمية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144511100504

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں