بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

کیا حج مبرور کے بعد حاجی سے گناہ صادر نہیں ہوسکتا؟


سوال

1- کوئی شخص یا خاتون اللہ تعالی کا گھر دیکھ کر حج کی سعادت حاصل کر کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ مبارک پر حاضری دے کر جب (وہ حاجی )اپنے گھر واپس لوٹتا ہے اس  کا دل پاک و صاف ہوجاتا ہے، جیسا کہ وہ ابھی پیدا ہوا ہو، کسی بھی اختلافات کی وجہ سے اس کے دل میں کینہ، نفرت بھری ہوئی ہو، واپس آکر پھر وہ پرانی باتوں کا تذکرہ کرے، اس  کا مطلب ہے کہ اس کا دل صاف نہیں ہے، وضاحت فرمائیں۔

2- کسی آدمی نے کسی کے ساتھ کوئی نیکی کی ہو، اور وہ اس کو بار بار جتلائے ان کے لیے کیا حکم ہے؟

3- سنا ہے کہ بڑی بہن ماں کا درجہ رکھتی ہے، اور بڑا بھائی باپ کا درجہ رکھتا ہے، کوئی بہن بھائی، بڑے بھائی اور بڑی بہن کی عزت نہیں کرتا اور اس کو تکلیف پہنچاتا ہے، ان کے لیے کیا حکم ہے؟ راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

جو شخص حلال مال سے خالص اللہ تعالی کی رضا کے لیے شریعت و سنت کے مطابق ایسا حج کرے جس میں نہ اس نے بری بات کی ہو، اور نہ ہی معصیت اور گناہ کا کام کیا ہو تو حقوق اللہ سے متعلق  گزشتہ گناہوں سے وہ ایسا پاک ہوجاتا ہے جیسا کہ اس کی ماں نے اسے آج ہی جنا ہو۔ باقی آئندہ گناہوں کا صدور  نہ ہونا اور دل کا تمام روحانی امراض سے پاک و صاف ہوکر ہر کدورت سے مصفّٰی ہوجاناحدیث کا مصداق نہیں ہے، لہٰذا حج کی سعادت حاصل کرنے کے بعد بھی مذکورہ شخص کےدل میں اگر  اختلافات وغیرہ کی وجہ  سےاپنے مسلمان بھائی کے لیے کینہ اور نفرت   ہو تو اس سے حدیث پر اشکال درست نہیں ہے، کیوں کہ حدیث میں صرف اس قدر مذکور ہے کہ اس کے گزشتہ تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔

نیز مذکورہ شخص کینہ اور نفرت کے سبب یعنی اختلافات کا ازالہ کرے، اور اہل اللہ (اللہ والوں) سے تعلق جوڑے ، آپس میں موقع بہ موقع کچھ تحفہ پیش کرتا رہے، ان شاء اللہ مذکورہ بیماری جاتی رہے گی۔ 

2- جو شخص کسی کے ساتھ احسان اور بھلائی کر کے اسے جتلائے تو اس  سےوہ اس کے اجر و ثواب سے محروم ہوجاتا ہے۔ 

3- بڑا بھائی باپ کا درجہ رکھتا ہےاور بڑی بہن ماں کا درجہ رکھتی ہے(حدیث میں بہن کا ذکر نہیں ہے، اس کا ذکر تبعاً آجاتا ہے)، لہٰذا بڑے بھائی بہن کی عزت نہ کرنا  ان  کی حق تلفی کرنا اور ان کو  تکلیف دینا حرام ہے، نیز بڑوں پر بھی لازم ہے کہ وہ  چھوٹوں پر شفقت کرے اور ان کی اچھی تربیت کرے، حدیث میں وارد ہے کہ جو چھوٹوں پر شفقت نہ کریں اور بڑوں کی عزت نہ کریں وہ ہم میں سے نہیں ہے،لہٰذا اس حوالے سے شرعی تعلیمات ہر پہلو سے سامنے  رکھنی چاہئیں۔

فتح الباری بشرح البخاری میں ہے:

"حدثنا آدم حدثنا شعبة حدثنا سيار أبو الحكم قال سمعت أبا حازم قال سمعت أبا هريرة رضي الله عنه قال سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول "من حج لله فلم يرفث ولم يفسق رجع كيوم ولدته أمه.

قوله: (رجع كيوم ولدته أمه) أي بغير ذنب، وظاهره غفران الصغائر والكبائر والتبعات، وهو من أقوى الشواهد لحديث العباس بن مرداس المصرح بذلك، وله شاهد من حديث ابن عمر في تفسير الطبري"

(کتاب الحج، باب فضل حج المبرور، ج:3، ص:383، ط:المکتبة السلفية)

مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح میں ہے:

"عن عائشة رضي الله عنها عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «‌تهادوا فإن الهدية تذهب الضغائن».
«فإن الهدية تذهب الضغائن» جمع ضغينة وهي الحقد أي: تزيل البغض والعداوة وتحصل الألفة والمحبة كما ورد: «‌تهادوا تحابوا وتصافحوا يذهب الغل عنكم» على ما رواه ابن عساكر عن أبي هريرة، وفي رواية له عن عائشة: «‌تهادوا تزدادوا» ، قال الطيبي: حبا ; وذلك لأن السخط جالب للضغينة والحقد، والهدية جالبة للرضا فإذا جاء سبب الرضا ذهب سبب السخط."

(کتاب البیوع، باب الهبة والهدية، ج:6،ص:215، مكتبة التجارية)

قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

"يَاأَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقَاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذٰى."(سورۂ بقرہ، آیت:264)

”اے ایمان والو!تم احسان جتلا کر یا ایذا پہنچا کر اپنی خیرات کو برباد مت کرو۔“

معجم طبرانی  میں ہے:

"حدثنا محمد بن صالح بن الوليد النرسي، ثنا محمد بن يحيى الأزدي، ثنا محمد بن عمر الواقدي، ثنا عبد الله بن منيب، عن عثيم بن كثير بن كليب الجهني، عن أبيه، عن جده، وكانت له صحبة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌الأكبر ‌من ‌الإخوة بمنزلة الأب»."

(جلد:19، صفحة:200،مكتبة إبن تيمية)

شعب الایمان للبیہقی میں ہے:

"حق ‌كبير ‌الأخوة على صغيرهم حق الوالد على ولده."

(بر الوالدین، ج:6،ص:210،دار الکتب العلمية)

سنن ترمذی میں ہے:

"عن زربي، قال: سمعت أنس بن مالك يقول: جاء شيخ يريد النبي صلى الله عليه وسلم فأبطأ القوم عنه أن يوسعوا له، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: "ليس منا ‌من ‌لم ‌يرحم صغيرنا ويوقر كبيرنا."

(ابواب البر والصلة،باب ما جاء في رحمة الصبيان،ج:4،ص:47،دار رسالة العالمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144606101711

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں