بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

کیا اقرار باللسان کے بغیرایمان معتبر ہے؟


سوال

کیا اقرار باللسان کے بغیرایمان معتبر ہے؟ یعنی جس نے اقرار باللسان نہیں کیا اور دل میں ایمان رکھتا ہے تو وہ مسلمان ہو سکتا ہے؟

جواب

جو شخص واقعی دل میں ایمان کے بنیادی عقائد پر یقین رکھتا ہو، لیکن زبان سے اقرار نہ کیا ہو تو وہ اخروی اعتبار سے مسلمان شمار ہوگا، البتہ دنیوی احکام جاری ہونے کےلیے، اور دنیا کے اعتبار سے مسلمان کہلانے کےلیے زبان سے اقرار کرنا شرط ہے، اور اگر اقرار کا مطالبہ کرلیا گیا تو پھر اقرار کرنا لازم ہوگا، ورنہ دلی ایمان بھی معتبر نہ ہوگا۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"باب المرتد هو لغة الراجع مطلقا وشرعا (الراجع عن دين الإسلام وركنها إجراء كلمة الكفر على اللسان بعد الإيمان) وهو تصديق محمد صلى الله عليه وسلم في جميع ما جاء به عن الله تعالى مما علم مجيئه ضرورة وهل هو فقط أو هو مع الإقرار؟ قولان وأكثر الحنفية على الثاني والمحققون على الأول والإقرار شرط لإجراء الأحكام الدنيوية بعد الاتفاق على أنه يعتقد متى طولب به أتى به فإن طولب به فلم يقر فهو كفر عناد قاله المصنف."

(كتاب الجهاد، باب المرتد، ج:4، ص:221، ط:سعيد)

ترجمان السنةمیں ہے:

”علامہ تفتازانی فرماتے ہیں کہ اگر اس اقرار کا صرف یہ مقصد ہے تو تنہائی کا اقرار کافی نہ ہونا چاہیے بلکہ کم از کم مسلمانوں کے امیرکے سامنے ہونا چاہیے تاکہ اجراء احکام کا اصل مقصد حاصل ہو سکے۔ اس امر پر فریقین کا اتفاق ہے کہ مطالبہ کے بعد زبان سے اقرار کرنا بہر کیف ضروری ہے کیونکہ اب اقرار نہ کرنے کے معنی گویا انکار کرنا ہیں‘ یہ کفر جحود کہلاتا ہے۔

وَجَحَدُوْا ِبَها وَاسْتَيْقَنَتْهَا اَنْفُسُهُمْ (نمل:۱۴)                                              اور انکار کیا ان (آیات) کا حالانکہ اپنے دل میں اس کا یقین کرچکے تھے۔

اس آیت سے معلوم ہو کہ کبھی دل اندر سے یقین کرنے کےلیے مجبور ہوتا ہے مگر زبان پھر بھی انکار سے باز نہیں آتی‘ اس کا نام اصطلاح میں کفر عناد ہے۔ حضرت استاذ قدس سرہٗ فرماتے تھے کہ ہمارے فقہاء نے ایمان کی تعریف میں اسی لیے اقرار کا اضافہ کر دیا ہے کہ جو تصدقی قلبی‘ زبانی انکار کے ساتھ ہو وہ ایمان کی تعریف میں داخل نہ رہے اور یہ سمجھا ہے کہ  جب زبان کےلیے اقرار کرنا لازم ہوجائے گا تو اب انکار کی گنجائش ہی نہیں ہوگی۔“

(کتاب التوحید، ایمان کی تعریف پر تفصیلی نظر، اقرار باللسان، ج:1، ص:424، ط:رحمانیہ)

فقط واللہ اَعلم


فتوی نمبر : 144607100356

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں