بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

کیاایصال ثواب کی نیت سے نفلی صدقہ اپنے گھر کے افراد کو دیا جاسکتا ہے؟


سوال

 مجھے میری والدہ کچھ رقم  صدقہ کرنے کے لیے دیتی ہے  اور کچھ رقم میں اپنی   طرف سے ملاتا ہو ں،تاکہ اس کا ثواب ہمارے  وفات شدہ بڑوں کو پہنچ سکے ،میں نے آپ کی  ویب سائٹ پر پڑھا تھاکہ نفلی صدقہ کسی کو بھی دیا جا سکتا ہے، خواہ وہ مالدار ہو یا غریب،اب میرا سوال یہ ہے کہ کیا میں یہ رقم اپنے گھر والوں پر خرچ کر  کے صدقے کی نیت کرسکتا ہوں؟

جواب

نفلی صد قہ  کسی کو بھی دیا جاسکتا ہے ، اپنے اصول (باپ داد )وفروع (بیٹا پوتے وغیرہ )اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو بھی دیا جاسکتا ہے، بلکہ  نفلی صدقہ میں افضل یہ ہے کہ آدمی اپنے والدین اور قریبی رشتہ داروں پر    خرچ کرے،لہذا آپ   نفلی صدقہ اپنے گھر والوں  پر خرچ کرسکتے ہیں  اور اس کا ثواب اپنے فوت شدہ حضرات کو بھی پہنچاسکتے ہیں  ،البتہ اگر گھر والے  رشتہ داروں کی حالت اچھی ہو اور اس کے مقابلے میں دوسرے لوگ زیادہ محتاج ہوں  تو صدقہ کے یہ پیسے ان کو دینا زیاد ہ بہتر ہو گا ۔

 بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما صدقة التطوع فیجوز صرفها إلی الغنی لأنها تجري مجری الهبة."

(كتاب الزكاة،فصل الذي يرجع إلى المؤدى إليه،48/2،ط:العلمیة بیروت)

 تفسیر مظہری میں ہے :

"‌قل ‌ما ‌أنفقتم ‌من ‌خير فللوالدين والأقربين واليتامى والمساكين وابن السبيل بين المصرف بالعبارة وجواب السائل بالاشارة بتعميم ما أنفقتم من خير بناء على ان ملاحظة المصرف أهم فان اعتداد النفقة باعتباره."

(سورةالبقرةالآية(216)،256/1،ط:رشیدیه)

عمدۃ القاری میں ہے :

"عن أنس مثل حديث ثابت قال ‌اجعلها ‌لفقراء ‌قرابتك قال أنس فجعلها لحسان وأبي بن كعب وكانا أقرب إليه مني."

(كتاب الوصايا،باب إذا وقف أو أوصى لأقاربه،46/14،ط:ودار الفكر بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"تنبيه:صرح علماؤنا في باب الحج عن الغير بأن للإنسان أن يجعل ثواب عمله لغيره صلاة أو صوما أو صدقة أو غيرها كذا في الهداية، بل في زكاة التتارخانية عن المحيط: ‌الأفضل ‌لمن ‌يتصدق ‌نفلا ‌أن ‌ينوي لجميع المؤمنين والمؤمنات لأنها تصل إليهم ولا ينقص من أجره شيء اهـ هو مذهب أهل السنة والجماعة، لكن استثنى مالك والشافعي العبادات البدنية المحضة كالصلاة والتلاوة فلا يصل ثوابها إلى الميت عندهما، بخلاف غيرها كالصدقة والحج. وخالف المعتزلة في الكل، وتمامه في فتح القدير"

(‌‌كتاب الصلاة،‌‌باب صلاة الجنازة،مطلب في زيارة القبور،243/2ط: سعید)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144601101013

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں