کھانے پر فاتحہ پڑھنا بدعت کیوں ہے؟ جب کہ صحیح بخاری کی روایت میں موجود ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھانا رکھاگیا، جو ام سلیم رضی اللہ عنہانے بھیجاتھا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانا سامنے رکھ کے کچھ پڑھنا شروع کیا، اورساتھ میں یہ روایت بھی ملتی ہے کہ جو شخص کھانا لایا تھا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ صحابہ کرام کو بلاؤ، اور وہ تھو ڑا سا کھانا فاتحہ سے کثیر صحابہ کرام کو کفایت کرگیا۔
شاہ عبدا لعزیز رحمة اللہ علیہ کے حوالے سے یہ روایت ملتی ہے کہ آپ ہر سال حضور علیہ السلام کی میلاد شریف کے لیے کچھ نہ کچھ کھانے پر فاتحہ پڑھتے تھے، ایک بار زیادہ اسباب نہ ہونے کی وجہ سے کچھ چنوں پر فاتحہ دی، تو خواب دیکھاکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان چنوں کو تناول فرمارہے ہیں۔
اسی طرح مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کے حوالے سے یہ روایت ملتی ہے کہ آپ کھانے پر فاتحہ دیاکرتے تھے ، اورآل و احباب کے ساتھ مخصوص کرتے تھے، ایک مرتبہ خواب میں حضور کو دیکھا کہ فقیر سلام عرض کرتاہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم توجہ نہیں فرماتے اور چہرے اقدس دوسری طرح پھیرے ہوئے ہیں، اسی درمیان فقیر سے یہ فرماتے ہیں:” میں کھانا عا ئشہ رضی اللہ عنہا کے گھر کھاتاہوں، جو مجھے کھانا بھیجے عا ئشہ کے گھر بھیجے“ اسی قت فقیر نے سمجھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عدم توجہ کا سبب یہ تھا کہ فقیر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو اس کھانے میں شریک نہیں کرتا تھا، اس کے بعد سے حضرت عائشہ صدیقہ کو بلکہ تمام ازواج مطہرات کو جو سب کے سب اہل بیت ہیں، شریک کرتا تھا اور تمام اہل بیت کے ساتھ توسل کرتاتھا۔
کسی کھانے کی چیز پر فاتحہ پڑھنے کا مروجہ طریقہ نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے منقول ہے، اسی بنا پر ایسا کرنا یہ بدعت ہے، جس سے اجتناب لازم ہے، اور مروجہ فاتحہ والا کھانا کھانےسے اجتناب کرنا چاہئے۔
باقی سائل نے بخاری شریف کی جس روایت کا تذکرہ کیا ہے، اس میں سورۂ فاتحہ کا کہیں بھی ذکر نہیں ہے،البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کھانے میں برکت کی دعا کی ، اور اس پر صرف بسم اللہ ، يا "بسم اللہ اللہم اعظم فیہا البركۃ" پڑھا تھا۔
جہاں تک کھانے پر سورۂ فاتحہ پڑھنے سے متعلق حضرت مجدد الف ثانی اور حضرت شاہ عبد العزیز رحمہما اللہ کی بات ہے، تو مذکورہ دونوں واقعات باحوالہ لکھ کر جواب معلوم کر لیا جائے۔
کفایت المفتی میں ہے:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کھانے پر سورۂ فاتحہ پڑھنا کسی روایت سے ثابت نہیں ۔
"سوال:حضرت رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کھانے پر سورۂ فاتحہ پڑھی ہے یا نہیں ؟ اور یہ ذکر ترمذی شریف باب علامات النبوۃ میں ہے یا نہیں؟
جواب:غلط ہے۔ ترمذی شریف میں کوئی ایسی روایت نہیں ہے۔"
(کتاب العقائد، جلد1،صفحہ217،دار الاشاعت)
فتح الباری شرح صحیح بخاری:
"وفي رواية مبارك بن فضالة فقال هل من سمن؟ فقال أبو طلحة: قد كان في العكة سمن، فجاء بها فجعلا يعصرانها حتى خرج، ثم مسح رسول الله صلى الله عليه وسلم به سبابته، ثم مسح القرص فانتفخ وقال: باسم الله، فلم يزل يصنع ذلك والقرص ينتفخ حتى رأيت القرص في الجفنة يتميع،وفي رواية سعد بن سعيد فمسها رسول الله صلى الله عليه وسلم ودعا فيها بالبركة وفي رواية النضر بن أنس فجئت بها ففتح رباطها ثم قال: باسم الله، اللهم أعظم فيها البركة وعرف بهذا المراد بقوله: وقال فيها ما شاء الله أن يقول."
(كتاب المناقب، باب علامات النبوة في الإسلام، 590/6، ط: مكتبة السلفية)
عمدة القاری شرح بخاری میں ہے:
"وفي رواية مبارك بن فضالة: فقال: هل من سمن؟ فقال أبو طلحة: قد كان في العكة شيء، فجاء بها فجعلا يعصرانها حتى خرج، ثم مسح رسول الله، صلى الله عليه وسلم سبابته، ثم مسح القرص فانتفخ وقال: بسم الله، فلم يزل يصنع ذلك والقرص ينتفخ حتى رأيت القرص في الجفنة يتميع."
(كتاب المناقب، باب علامات النبوة في الإسلام، 122/16، ط: دار الفكر)
ارشادالساری میں ہے:
"(ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم فيه ما شاء الله أن يقول) وفي رواية مبارك بن فضالة عند أحمد فقال: "بسم الله". وفي رواية سعد بن سعيد عند مسلم فمسحها ودعا فيها بالبركة، وفى رواية النضر بن أنس عند أحمد عن أنس فجئت بها ففتح رباطها ثم قال:"بسم الله اللهم أعظم فيهاالبركة"
(كتاب المناقب،باب علامات النبوة في الإسلام، 40/6، ط: مطبعة الكبرى الأميري)
منحۃ الباری میں ہے:
(ما شاء اللَّه أن يقول) في رواية:"قال: بسم اللَّه"، وفي أخرى: "قال: بسم الله اللهم أعظم فيها البركة". وفي أخرى: "فمسحها ودعا فيها بالبركة"
(کتاب المناقب، باب علامات النبوة في الإسلام، 622/6، ط: مكتبة الرشد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144604102942
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن