میری بیوی سے میری 2دن پہلے ایک بات پرلڑائی ہوئی ، جس کی وجہ سے میری بیوی نے مجھے کہا کہ ’’ اب میں آپ کے ساتھ نہیں رہوں گی اور نہ ہی اب مجھے آ پ کے گھر آنا ہے‘‘ تو میں نے اپنی بیوی کو کہا : ’’ کیا میں تمہیں طلاق ، طلاق، طلاق دوں؟ ـ‘‘
اب پوچھنا یہ ہے کہ : کیا مذکورہ صورت میں طلاق واقع ہوئی ہے ؟ میں اپنا گھر نہیں توڑنا چاہتا ، میری شادی کو ابھی ایک سال ہی ہوا ہے ، مجھے امید ہے کہ آپ مجھے اچھا ہی جواب دیں گے ۔
صورتِ مسئولہ میں چوں کہ سائل نے اپنی بیوی کو طلاقیں دی نہیں ہیں ، بلکہ استفہامیہ طور پر تین طلاقیں دینے کا پوچھا ہے ، لہذا مذکورہ صورت میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ہے، جس کی وجہ سے میاں، بیوی کا رشتہ ازواج ابھی تک قائم ہے ۔ آئندہ اس قسم کی گفتگو سے بھی احتراز کیا جائے۔
الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:
"وشرعا (رفع قيد النكاح في الحال) بالبائن (أو المآل) بالرجعي (بلفظ مخصوص) هو ما اشتمل على الطلاق..."[وفي رد المحتار :]"(قوله في الحال بالبائن) متعلقان برفع (قوله أو المآل)أي بعد انقضاء العدة أو انضمام طلقتين إلى الأولى ..."
(كتاب الطلاق، ج:3، ص: 227، ط: سعيد)
وفيه أيضا:
"وركنه لفظ مخصوصخال عن الاستثناء (طلقة) رجعية (فقط في طهر لا وطء فيه) وتركها حتى تمضي عدتها (أحسن) بالنسبة إلى البعض الآخر ..."[وفي رد المحتار : ]"(قوله وركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالة على معنى الطلاق من صريح أو كناية فخرج الفسوخ على ما مر، وأراد اللفظ ولو حكما ليدخل الكتابة المستبينة وإشارة الأخرس والإشارة إلى العدد بالأصابع في قوله أنت طالق هكذا كما سيأتي."
(كتاب الطلاق، ج:3، ص:230، ط: سعيد)
حاشية ابن عابدين میں ہے :
"أما التهديد فإنما يكون بغير الحاصل إذ لو كان المهدد به حاصلا لم يكن للتهديد به معنى، فعلم بالتهديد أن المطلقة غيرها..."
(كتاب العتق، ج: 3، ص: 669، ط: سعيد)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"(أما تفسيره) شرعا فهو رفع قيد النكاح حالا أو مآلا بلفظ مخصوص كذا في البحر الرائق (وأما ركنه) فقوله: أنت طالق. ونحوه كذا في الكافي."
(كتاب الطلاق، الباب الأول في تفسير الطلاق و ركنه ....، ج:1، ص: 348، ط: دار الفكر)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144608100942
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن