بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 ذو القعدة 1446ھ 29 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

کیا میں تمہاری بیوی نہیں ہوں کے جواب میں نہیں کہنے کا حکم


سوال

 میاں بیوی آپس میں بیٹھے ہنسی مذاق کر رہے تھے، بیوی کوئی بھی سوال کرتی تو شوہر ازراہِ تفنن جواب میں "نہیں" کہہ دیتا، جس سے بیوی جھوٹی ناراضگی کا اظہار کرتی، سوالات کرتے کرتے اچانک بیوی نے شوہر کے "نہیں، نہیں" کو ختم کرنے کے لیے سوال کیا کہ "کیا میں تمہاری بیوی نہیں ہوں؟" اور شوہر نے اسی جوابی لہر میں کہہ دیا کہ "نہیں"، اگرچہ اس سے شوہر کی نیت طلاق کی نہیں تھی، اب دونوں میاں بیوی پریشان ہیں کہ جب شوہر نے اپنے لیے بیوی کے ہونے کی نفی کر دی ہے تو کیا طلاق واقع ہو گئی ہے یا نہیں؟

جواب

صورت ِ مسئولہ میں جب بیوی نے شوہر سے کہا "کیا میں تمہاری بیوی نہیں ہوں ؟" اور اس کے جواب میں شوہر نے کہا "نہیں " اور اس جملہ سے شوہر کی نیت طلاق دینے کی نیت نہیں تھی تو اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی ،دونوں کا نکاح حسبِ سابق برقرار  رہے گا،تاہم آئندہ اس قسم کی گفتگو  سے اجتناب کرنا چاہیے۔

درر الحکام میں ہے :

"(لست لي بامرأة) يعني أن قول الزوج لامرأته: لست لي بامرأة(و) كذا قوله لها: أنا (لست لك) بزوج (طلاق بائن إن نواه) ، وقالا: لا يكون طلاقا؛ لأنه نفى النكاح وهو لا يكون طلاقا، بل كذبا لكون الزوجية معلومة فصار كما لو قال: لم أتزوجك أو سئل هل لك امرأة، فقال: لا ونوى الطلاق لا يقع فكذا هنا وله أن هذه الألفاظ تصلح لإنكار النكاح وتصلح لإنشاء الطلاق ألا يرى أنه يجوز أن يقول ليست لي بامرأة؛ لأني طلقتها كما يجوز أن يقول: ليست بامرأة؛ لأني ما تزوجتها فإذا نوى به الطلاق فقد نوى محتمل لفظه فيصح كما لو قال لا نكاح بيني وبينك".

(کتاب الطلاق،انواع الطلاق،ج؛1،ص:370،داراحیاء الکتب العربیة)

مبسوط سرخسی میں ہے :

"(قال) وإن قال لامرأته: لست لي بامرأة ينوي الطلاق فهو كما وصفت لك في الخلية والبرية في قول أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - وقال أبو يوسف ومحمد رحمهما الله تعالى: لا تطلق وهذا ليس بشيء لحديث عمر بن الخطاب - رضي الله تعالى عنه - قال إذا سئل الرجل ألك امرأة فقال: لا فإنما هي كذبة وهذا المعنى أنه نفى نكاحها ونفي الزوجية لا يكون طلاقا بل يكون كذبا منه لما كانت الزوجية بينهما معلومة كما لو قال لامرأته: والله ما أنت لي بامرأة أو علي حجة إن كانت لي امرأة أو ما لي امرأة، أو قال: لم أتزوجك لم يقع الطلاق بهذه الألفاظ وإن نوى وأبو حنيفة - رحمه الله تعالى - يقول: قوله لست لي بامرأة كلام محتمل أي لست لي بامرأة لأني فارقتك أو لست لي بامرأة لأنك لم تكوني في نكاحي وموجب الكلام المحتمل يتبين بنيته فلا تكون هذه الألفاظ طلاقا بغير النية ونية الطلاق تعمل فيه لأنه من محتملاته كما في قوله خلية برية."

(کتاب الطلاق ،باب ما تقع به الفرقة مما یشبه الطلاق،ج؛6،ص:81،دارالمعرفة)

فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ہے :

"سوال:ایک شخص نے بحالت غصہ اپنی بیوی کو یہ الفاظ کہے کہ اب تو میری بیوی نہیں اور نہ آئندہ سے میں تجھ کو اپنی بیوی سمجھوں گا ۔اس صورت میں کیا حکم ہے ؟

جواب:اگر طلاق کی نیت سے شوہر نے یہ لفظ کہا ہے کہ اب تو میری بیوی نہیں ہے تو ایک طلاق بائنہ اس پر واقع ہوگئی اور اگر نیت طلاق کی نہ تھی تو طلاق واقع نہیں ہوئی ۔"

(کتاب الطلاق،ج:9،ص:256،دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144610101376

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں