مسئلہ یہ ہے کہ میں ڈاکٹر آف فارمیسی کے دوسرے سال کی طالبہ ہوں، جناح یو نیورسٹی فار ومین سے تعلیم حاصل کر رہی ہوں اور اب میں (ایم،بی،بی،ایس)کرنا چاہتی ہوں ، پہلے تو میں نے (ایم،بی، بی، ایس)میں داخلہ co-education(مرد وزن سےمخلوط تعلیم) کی وجہ سے نہیں لیا تھا، کیوں کہ وہاں لڑکے اور لڑکیاں ساتھ ہوتے ہیں،لیکن اب (ایم، بی، بی،ایس)کرنے کی وجہ یہ ہے کہ میری چاہت ورغبت گائینا کولوجیتر یعنی عورتوں کے امراض میں ہے،کیا میںco-educationوالی یونی ورسٹی میں (ایم، بی، بی، ایس)کے لیے داخلہ لے سکتی ہوں یانہیں؟
صورتِ مسئولہ میں سائلہ کا مذکورہ ادارہ میں تعلیم حاصل کرنا درست نہیں، کیوں کہ عورت کو شریعت نے پردہ میں رہنے کاحکم دیاہے اور مخلوط تعلیمی نظام میں بےپردگی کا ہونا ایک لازمی جز ہے، لہذا ایسے نظام میں تعلیم حاصل کرناجائزنہیں۔
قرآن کریم میں ہے:
"قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوْا مِنْ أَبْصٰرِهِمْ وَيَحْفَظُوْا فُرُوجَهُمْ ذٰلِكَ أَزْكَىٰ لَهُمْ إِنَّ اللّٰهَ خَبِيرُۢ بِمَا يَصْنَعُونَ ٣٠ وَقُل لِّلْمُؤْمِنٰتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصٰرِهِنَّ ...الآية"(سورة النور، الأية:31)
"ترجمہ:آپ مسلمان مردوں سے کہہ دیجیے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ، یہ ان کے لیے زیادہ صفائی کی بات ہے بےشک الله تعالیٰ کو سب خبر ہے جو کچھ لوگ کیا کرتے ہیں ۔ اور (اسی طرح) مسلمان عورتوں سے (بھی) کہہ دیجیے کہ وہ (بھی) اپنی نگاہیں نیچی رکھیں...الآیہ(از بیان القرآن)"
فتاوی بزازیہ (علی ہامش الہندیہ) میں ہے:
"ولايأذن بالخروج إلي المجلس الذي يجتمع فيه الرجال و النساء وفيه من المنكرات."
(كتاب النكاح، الفصل الثامن عشر في الحظر والإباحة،4/ 157، ط: رشيدية)
الموسوعة الفقهية الكويتية میں ہے:
"الخلوة: فلا يحل للرجل والمرأة إذا كانا أجنبيين أن يخلو أحدهما بالآخر؛ لما ورد في حديث البخاري مرفوعا:" إياكم والدخول على النساء"، وحديثه الآخر:" لا يخلون رجل بامرأة إلا مع ذي محرم."
(حرف الألف، الخلوة، ج:2، ص:55، ط: وزارة الأوقاف، كويت)
المبسوط للسرخسي میں ہے:
"(قال) وينبغي للقاضي أن يقدم النساء على حدة والرجال على حدة؛ لأن الناس يزدحمون في مجلسه، وفي اختلاط النساء مع الرجال عند الزحمة من الفتنة والقبح ما لا يخفى."
(كتاب أدب القاضي،ج:16، ص:80، ط: دار المعرفة بيروت)
حجۃ اللہ البالغۃ میں ہے:
"اعلم أنه لما كان الرجال يهيجهم النظر إلى النساء على عشقهن والتوله بهن، ويفعل بالنساء مثل ذلك، وكان كثيرا ما يكون ذلك سببا لأن يبتغي قضاء الشهوة منهن على غير السنة الراشدة، كإتباع من هي في عصمة غيره، أو بلا نكاح، أو غير اعتبار كفاءة - والذي شوهد في هذا الباب يغني عما سطر في الدفاتر - اقتضت الحكمة أن يسد هذا الباب."
(أبواب تدبير المنزل، ذكر العورات، ج:2، ص:193، ط: دار الجيل بيروت)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144510100305
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن