بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا مظلوم کا اپنے اوپر ہونے والی مظالم کا ذکر کرنا غیبت میں داخل ہے؟


سوال

اگر  کوئی ہمارے ساتھ بُرا کرے اور ہمیں تکلیف پہنچائے تو جب  ہم اس کے دیئے ہوئے  تکلیف دہ عمل کو اپنے دوستوں کو بتائے تو  کیا ہمارا یہ عمل غیبت کے زمرے میں آئے گا؟

جواب

واضح رہے کہ مظلوم اگر  اپنے اوپر ہونے والی بُرائی اور ظلم و زیادتی کا تذکرہ  اسے دور کرنے کی خاطر کسی ایسے شخص کے سامنے کرتا ہے جو اس مظلوم سے ظلم کو دور کرنے کی قدرت بھی رکھتاہو  تو مظلوم کا یہ عمل غیبت کے زمرے میں نہیں آئے گا، ہاں اگر وہ شخص مظلوم سے ظلم کو دور کرنےکی   قدرت نہ رکھتا ہو یا  مظلوم غصّہ اور سبّ و شتم کے طور پر اس ظالم کی بُرائی اور عیوب بیان کرتا ہو تو اس کا یہ عمل درست نہیں ہوگا اور شرعًا غیبت کے زمرے میں آئے گا۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر آپ اصلاح کی نیت سے اپنے اوپر ہونے والی ظلم و زیادتی کا تذکرہ دوستوں سے کرتی ہیں اور وہ حضرات بھی  بغیر  کسی لڑائی جھگڑے کے اسے دور کرنے پر قادر ہوں تو آپ کا یہ عمل غیبت نہیں ہوگا، البتہ جو ظلم و زیادتی ہو چکیں ہیں اس کا ہر کسی کے سامنے ظالم کی تعیین کے ساتھ یا اس کی بُرائی کی نیت سےتذکرہ  کرنا درست نہیں ہوگا اور یہ غیبت کہلائے گا، اس طرح آپ مظلوم نہیں رہےگی، بلکہ آپ  ظالم  اور وہ شخص جس نے آپ کے ساتھ بُرا کیا ہے  مظلوم بن جائے گا، لہٰذا اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وكذا) لا إثم عليه (لو ذكر مساوئ أخيه على وجه الاهتمام لا يكون غيبة إنما الغيبة أن يذكر على وجه الغضب يريد السب) ولو اغتاب أهل قرية فليس بغيبة لأنه لا يريد به كلهم بل بعضهم وهو مجهول خانية فتباح غيبة مجهول ومتظاهر بقبيح ولمصاهرة ولسوء اعتقاد تحذيرا منه، ولشكوى ظلامته للحاكم.

و في الرد: قوله ولشكوى ظلامته للحاكم) فيقول ظلمني فلان بكذا لينصفه منه".

(كتاب الحظر والإباحة، ج:6، ص:408، ط:ايج ايم سعيد كراتشي)

كتاب الأربعين للإمام غزالی میں ہے:

"إنما يرخص في الغيبة في ستة مواضع:

الأول منها:المتظلم يذكر ظلم الظالم عندسلطان ليدفع ظلمه، فأما عند غير سلطان و عند من لا يقدر على الدفع فلا.

اغتيب الحجاج عند بعض السلف، فقال: إن الله لينتقم للحجاج ممن اغتابه كما ينتقم من الحجاج لمن ظلمه".

(الآفة الثانية الغيبة، ص:123، ط: دار القلم دمشق)

"ترجمہ: (جن صورتوں میں  غیبت کی گنجائش ہے  ان میں سے ایک یہ ہے کہ) مظلوم شخص ظالم کی شکایت اگر اعلیٰ افسر تک پہنچائےاور اپنے اوپر سے ظلم رفع کرنے کی نیت سے اس کے مظالم بیان کرے تو گناہ نہیں ہے، البتہ ظالم کے عیوب کا ایسے لوگوں سے بیان کرنا جنہیں اس کو سزا دینے یا مظلوم کے اوپر سے ظلم رفع کرنے کی طاقت نہ ہو بدستور غیبت میں داخل اور حرام ہے۔

ایک بزرگ کی مجلس میں حجاج بن یوسف کا ذکر آگیا تھاتو انہوں نے یوں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ انصاف کے دن مظلوموں کا بدلہ حجاج سے لےگا اور حجاج کا بدلہ اس کی غیبت کرنے والوں سے لےگا، (اس لیے کہ بہت سے لوگ حجاج کے مظالم ایسے آدمیوں کے سامنے بیان کرتے ہیں جن کو حجاج کے کیے ہوئے ظلم رفع کرنے کی طاقت نہیں ہےتو ایسے لوگوں کے سامنے حجاج (جیسے ظالم) کی غیبت کس طرح جائز ہوسکتی ہے۔"

(تبلیغِ دین ، ص:98، ط:ضامن پبلیشرز لاہور)

فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144511101317

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں