بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا میک اپ جائز ہے؟ یہ ناشکری کے زمرے میں تو داخل نہیں ہے؟


سوال

کیا اسلام میں میک اَپ جائز  ہے؟ کیا یہ ناشکری کا اظہار نہیں ہے ؟

جواب

 زیب و زینت اور بناؤ سنگھار ایک فطری چیز ہے  اور اس فطری تقاضے کے پیشِ نظر شریعت نے  جہاں زیب و زینت کی اجازت  دی  ہے،   وہیں  دیگر چیزوں کی طرح  زیب وزینت سے متعلق بھی   جائز اور ناجائز کاموں  کے بارے میں قرآن و حدیث میں خوب واضح   احکام بیان فرما کر ان کی حد بندی  بھی کی ہے ، جس کی وجہ سے زیب و زینت اور    میک اَپ   کی بعض صورتیں جائز ہیں اوربعض ناجائز، لہذا  شریعت کی حدود میں رہ کر میک اَپ کے لیے ایسی اشیاء کا استعمال  کرنا جائز ہے جو پاک اور حلال اجزاء پر مشتمل ہوں، نیز تزیین و تحسین کے لیے  کسی بھی  قسم کی ایسی کوئی  صورت اختیار نہیں  کی جاسکتی  جو شریعت میں منع ہو۔

میک اپ  اور زیب و زینت  کی جو صورتیں جائز ہیں  وہ اللہ تعالیٰ کی ناشکری  میں داخل نہیں  ہیں، کیوں کہ اللہ تعالی نے تو   خود عورتوں كو جائز حدود میں   رہ کر اعتدال کے مطابق بناؤ سنگهار کرنے  اور  زیب و زینت   اختیار کرنے کا اشارہ  فرمایا  ہے، چناں چہ قرآن مجید میں  اللہ تعالی کا  ارشاد ہے:

"اَوَ مَنْ یُّنَشَّؤُا فِی الْحِلْیَةِ وَ هُوَ فِی الْخِصَامِ غَیْرُ مُبِیْنٍ."

 ترجمہ:"کیا جو کہ (حادثاً) آرائش میں نشوونما پاۓ اوروہ مباحثہ میں قوتِ بیانیہ بھی نہ رکھے."

(بیان القرآن ،سورۃ الزخرف،الآیۃ:،361/3،18،ط:رحمانیۃ)

 زیب و زینت کی تلاش کے اسباب کو بطور نعمت اور احسان ذکر فرمایاہے:

"وَهُوَ الَّذِیْ سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَاْكُلُوْا مِنْهُ لَحْمًا طَرِیًّا وَّ تَسْتَخْرِجُوْا مِنْهُ حِلْیَةً تَلْبَسُوْنَهَا."

ترجمہ"اور وہ ایسا ہے کہ اس نے دریا کو (بھی) مسخر بنایا کہ اس میں سے تازہ تازہ گوشت کھاؤ اور اس میں سے (موتیوں کا)گہنا نکالو جس کو تم پہنتے ہو."

(بیان القرآن ،سورۃ النحل،الآیۃ:329/2،14،ط:رحمانیۃ)

  اسی طرح    بعض صورتوں میں زیب و زینت ترک  کرنے پر ملامت کا اظہار بھی فرمایا ہے :

"قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَةَ اللّٰهِ الَّتِیْۤ اَخْرَ جَ لِعِبَادِهٖ."

ترجمہ:"فرمایئے کہ یہ بتلاؤ کہ اللہ تعالیٰ کے پیدا کئے ہوۓ کپڑوں کوجن کو اس نے اپنے بندوں کے استعمال کے واسطے  بنایا ہے۔۔۔۔کس شخص نے حرام کیا ہے."

(بیان القرآن ،سورۃ الاعراف،الآیۃ:21/2،32،ط:رحمانیۃ)

 اور شرعی حدود میں رہ کر  اختیارکیے جانے والے زیور کو پسند کرنے کے ساتھ ساتھ ، شریعت کی مقررہ حدود سے تجاوز کرنے  پر  وعید بھی بیان کی گئی ہے ،

چناں چہ سنن ِ ترمذی میں ہے:

"مثل ‌الرافلة في الزينة في غير  أهلها كمثل ظلمة يوم القيامة لا نور لها"

ترجمہ :"اپنے خاوند کے علاوہ دوسروں کے لیے زیب وزینت اختیار کرنے والی عورت قیامت کے دن ایسی تاریکی میں ہوگی کہ وہاں روشنی کی کوئی صورت بھی نہیں ہوگی"،(اسی طرح میک اپ کی تمام  خلافِ شرع صورتیں بھی اس وعید کے تحت داخل ہیں)۔

ہاں البتہ  آج کل کے مروج میک اپ اور زیب و زینت کی اکثر صورتیں  اسراف،دھوکہ دہی ، لغویات ، ضیاع  وقت ، تغییر لخلق اللہ ، ناشکری  اور دیگر بہت سی قباحتوں  کو شامل ہونے کی  وجہ سے ناجائز ہیں ۔

تفسیر کبیر میں ہے:

"ثم قال تعالى: ‌قل ‌من ‌حرم زينة الله التي أخرج لعباده والطيبات من الرزق وفيه مسائل:

المسألة الأولى: ............... وفي الآية قولان: القول الأول: إن المراد من الزينة في هذه الآية اللباس الذي تستر به العورة وهو قول ابن عباس رضي الله عنهما وكثير من المفسرين.

والقول الثاني: إنه يتناول جميع أنواع الزينة فيدخل تحت الزينة جميع أنواع التزيين ويدخل تحتها تنظيف البدن من جميع الوجوه."

(230/14،ط:دار إحیاء التراث العربي)

تفسیر روح المعانی میں ہے:

"قل من حرم زينة الله من الثياب وكل ما يتجمل به."

(351/4،ط:دارالکتب العلمیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409100040

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں