بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا مستحب کو چھوڑنے پر نکیر کرنا جائز ہے؟


سوال

بعض مرتبہ ہم کسی مستحب عمل کو چھوڑ دیتے ہیں، مثلاً قربانی کے گوشت کو تین حصوں میں تقسیم نہیں کیا؛ کیوں کہ سب عزیز واقارب کے ہاں قربانی ہو رہی ہے، کسی کو بھی قربانی کے گوشت کی حاجت نہیں، چنانچہ گوشت کو دو حصوں میں تقسیم کر لیا ایک اپنے لیے دوسرا فقراء کے لیے اور تقسیم کر دیا، اب کچھ لوگ اس عمل پر زبردست نکیر کرتے ہیں کہ آپ نے گوشت تین حصوں میں تقسیم کیوں نہیں کیا؟ جب کہ علماء نے تین حصوں کی تقسیم کو مستحب فرمایا ہے نہ کہ فرض و واجب تو پھر مستحب کو چھوڑنے پر نکیر کیسی?  پوچھنا یہ ہے کہ مستحب کو چھوڑنے پر نکیر کرنا جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ مستحب کے ترک پر نکیر کرنا شرعاً درست نہیں، بے شک جو حکم شریعت میں مستحب ہوتا ہے  اُس کے کرنے پر ثواب و اجر ہوتا ہے، لیکن اس کے کرنے کی اتنی تاکید نہیں ہوتی کہ اگر اس کو ترک کر دیا جائے تو اس پر تارک کو ملامت کی جائے۔

لہذا اگر کوئی شخص قربانی کے گوشت کو تین حصوں تقسیم نہیں کرتا، بلکہ اس کو کسی دوسرے طریقہ پر تقسیم کرتا ہے تو وہ ہرگز قابلِ ملامت اور قابلِ نکیر نہ ہو گا، اس کے باوجود اگر کوئی شخص اس پر انگلی اٹھاتا ہے تو یہ اُس کی نا واقفیت کی وجہ سے ہے، اس کا یہ عمل درست نہیں۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 123):

"(ومستحبه) ويسمى مندوبًا وأدبًا".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 328):
"(قوله: وندب إلخ) قال في البدائع: والأفضل أن يتصدق بالثلث ويتخذ الثلث ضيافة لأقربائه وأصدقائه ويدخر الثلث؛  قال في الإمداد: وحكمه الثواب على الفعل وعدم اللوم على الترك. اهـ". فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144108201525

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں