بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا نمازی کے سامنے سے ہٹنے سے نمازٹوٹ جاتی ہے؟


سوال

دو لوگ آگے پیچھے نماز پڑھ رہے ہوں ،آگے والا نمازی نماز مکمل کر لینے کے بعد پیچھے والے نمازی کا انتظار کیے بغیر آگے سے ہٹ جائے، تو کیا پچھلے نمازی کی نماز ٹوٹ جائے گی؟

جواب

 صورت مسئولہ میں جب دو لوگ آگے پیچھے نماز پڑھ رہے ہوں، آگے والا نمازی نماز مکمل کر لینے کے بعد، پیچھے والے نمازی کا انتظار کیے بغیر آگے سے ہٹ جائے توشرعًا اس طرح ہٹنے میں کوئی ممانعت نہیں کیونکہ یہ صورت نمازی کے آگے سے گزرنا نہیں بلکہ ہٹنا ہےاورہٹنا شرعاً منع نہیں ہے،نیز ملحوظ رہے نمازی کے آگے سے گزرنا منع ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے لیکن اس کے باوجود اگر کوئی گزر جائے تو گزرنے والا گنہگار قرار پائے گا، البتہ اس سے نمازی کی نماز فاسد نہیں ہوتی۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے: 

"وعن أبي جهيم قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌لو ‌يعلم ‌المار بين يدي المصلي ماذا عليه لكان أن يقف أربعين خيرا له من أن يمر بين يديه» . قال أبو النضر: لا أدري قال: «أربعين يوما أو شهرا أو سنة»"

(کتاب الصلوۃ،ج:1،ص:242،رقم الحدیث:776،ط:بیروت)

ترجمہ:’’اورحضرت ابوجہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ آقائے نامدار نے فرمایا: نمازی کے آگے سے گزرنے والا اگر یہ جان لے کہ اس کی کیا سزا ہے تو وہ نمازی کے آگے سے گزرنے کے بجائے چالیس تک کھڑے رہنے کو بہتر خیال کرے۔ (اس حدیث کے ایک راوی ) حضرت ابونضر فرماتے ہیں کہ چالیس دن یا چالیس مہینے یا چالیس سال کہا گیا ہے‘‘۔

(مظاہرحق،کتاب الصلوۃ،ج:1،ص:518،ط:دار الإشاعت)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن أبي سعيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا يقطع الصلاة شيء وادرؤوا ما استطعتم ‌فإنما ‌هو ‌شيطان»"

(کتاب الصلوۃ،ج:1،ص:244،رقم الحدیث:785،ط:بیروت)

ترجمہ :"اور حضرت ابو سعید راوی ہیں کہ آقا نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نمازی کے آگے سے گزرنے والی کوئی بھی چیز نماز کو نہیں توڑتی،( تاہم کوئی نمازی کے آگے سے گزرے تو نماز میں خشوع و خضوع برقرار رکھنے کی خاطر) تم حتی الامکان ا سے روکو کیونکہ وہ گزرنے والا شیطان ہے۔"

 (مظاہرحق،کتاب الصلوۃ،ج:1،ص:522،ط:دار الإشاعت)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولو مر اثنان يقوم أحدهُمَا أمامه ويمر الآخر ويفعل الآخر هكذا،ويمران،كذا فی القنيۃ."

(کتاب الصلوۃ،ج:1،ص:104ِ،ط:دار الفکر) 

بحرالرائق میں ہے: 

"عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم «لو يعلم أحدكم ما له في أن يمر بين يدي أخيه معترضا في الصلاة كان لأن يقيم مائة عام خير له من الخطوة التي خطا» وبهذا علم أن الكراهة تحريمية لتصريحهم بالإثم وهو المراد بقوله وإن ‌أثم ‌المار بين يديه."

(کتاب الصلوۃ،ج:2،ص:16،ط:دار الکتاب الإسلامی) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511100233

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں