بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

کیا قضاء نمازوں کی ادائیگی میں ترتیب ضروری ہے؟


سوال

میں اپنی کچھ سالوں کی قضاء  نمازیں  ادا کرنا چاہتی ہوں، کیا ان نمازوں کا آسان حساب رکھنے کے لیے ان کو ترتیب وار ادا کرنے کے بجائے کسی ایک وقت کی ساری نمازیں ادا کرنے  کے بعد  دوسرے وقت کی ساری نمازیں ادا کرسکتی ہوں؛ مثال کے طور پر مجھے پانچ سال کی تمام وقتوں کی نمازیں ادا کرنی ہیں تو فجر، ظہر،عصر، مغرب اور عشاء  کے بجائے پہلے پانچوں سالوں کی فجر کی قضاء نماز ادا کروں پھر ظہر، پھر عصر، پھر مغرب اور پھر عشاء کی ، کیا  میں ایسا  کر سکتی ہوں؟

جواب

جب کسی آدمی کی چھ یا چھ سے زیادہ نمازیں قضاء  ہو جائیں تو اُن نمازوں کو قضا کرتے وقت شرعاً کوئی ترتیب ضروری نہیں ہے۔ 

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سائلہ  کو جس ترتیب سے   قضاء نمازیں ادا کرنے میں آسانی ہو اسی ترتیب سے ادا کرے، خواہ سوال میں ذکر کردہ ترتیب  سے ادا کرے یا کسی اور ترتیب سے۔

تاہم قضاء نماز کی نیت  میں ضروری ہے کہ جس نماز کی قضا کی  جا رہی ہو اس کی مکمل تعیین کی جائے یعنی فلاں دن کی فلاں نماز کی قضا کر رہی ہوں، چوں کہ صورتِ مسئولہ میں قضاء نمازوں کے زیادہ ہونے کی وجہ سے دن کی تعیین کرنا مشکل ہوگی اس لیےزیادہ ہونے کی صورت میں اس طرح نیت کی جاسکتی ہے؛  مثلاً جتنی فجر کی نمازیں قضاہوئی ہیں ان میں سے پہلی  فجر کی نماز ادا کر رہی ہوں، یا  جتنی ظہر کی نمازیں قضا ہوئی ہیں ان میں سے پہلی ظہر کی نماز ادا کر رہی ہوں،  اور  یوں بھی نیت کی جاسکتی ہے کہ جتنی ظہر کی نمازیں قضا ہوئیں ان میں سے سب سے آخری ظہر کی نماز ادا کررہی ہوں۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے :

"كل صلاة فاتت عن الوقت بعد وجوبها فيه يلزمه قضاؤها سواء ترك عمداً أو سهواً أو بسبب نوم وسواء كانت الفوائت كثيرة أو قليلة."

وفيها ایضاً :

"ويسقط الترتيب عند كثرة الفوائت وهو الصحيح هكذا في محيط السرخسي، وحد الكثرة أن تصير الفوائت ستاً بخروج وقت الصلاة السادسة وعن محمد رحمه الله تعالى أنه اعتبر دخول وقت السادسة والأول هو الصحيح كذا في الهداية ..... وكثرة الفوائت كما تسقط الترتيب في الأداء تسقط في القضاء حتى لو ترك صلاة شهر ثم قضى ثلاثين فجراً ثم ثلاثين ظهراً ثم هكذا صح هكذا في محيط السرخسي."

(کتاب الصلاة، الباب الحادي عشر في قضاء الفوائت، ج : 1، ص : 134/36، ط : دار الکتب العلمیة)

رد المحتار میں ہے :

"(قوله كثرت الفوائت إلخ) مثاله: لو فاته صلاة الخميس والجمعة والسبت فإذا قضاها لا بد من التعيين لأن فجر الخميس مثلا غير فجر الجمعة، فإن أراد تسهيل الأمر، يقول أول فجر مثلا، فإنه إذا صلاه يصير ما يليه أولا أو يقول آخر فجر، فإن ما قبله يصير آخرا، ولا يضره عكس الترتيب لسقوطه بكثرة الفوائت. وقيل لا يلزمه التعيين."

(‌‌‌‌كتاب الصلاة، باب قضاء الفوائت، فروع في قضاء الفوائت، ج : 2، ص : 76، ط : سعید)

المحيط البرهانی میں ہے :

"ثم إذا كثرت الفوائت حتى سقط الترتيب، لأجلها في المستقبل سقط الترتيب في نفسها أيضا حتى قال أصحابنا رحمهم الله: فيمن كان عليه صلاة شهر، فصلى ‌ثلاثين ‌فجرا ثم صلى ثلاثين ظهرا هكذا الضرورة؛ وهذا لأن الفوائت عند كثرتها لما أسقطت الترتيب في أغيارها؛ فلأن يسقط في نفسها كان ذلك أولى."

وفيه ایضاً :

"إذا أراد أن يقضي الفوائت ذكر في "فتاوى أهل سمرقند": أنه ينوي أول ظهر لله عليه، وكذلك كل صلاة يقضيها، وإذا أراد ظهر آخر ينوي أيضا أول ظهر لله عليه؛ لأنه لما قضى الأول صار الثاني أول ظهر لله عليه، ورأيت في موضع آخر أنه ينوي آخر ظهر لله عليه، وكذلك كل صلاة يقضيها، وإذا أراد ظهرا آخر أيضا أول ظهر لله عليه؛ لأنه لما قضى الأول صار الثاني أول ظهر لله عليه، ورأيت في موضع آخر أنه ينوي آخر ظهر لله عليه، وكذلك كل صلاة يقضيها وإذا أراد أن يصلي ظهرا ينوي أيضا آخر، ظهر لله عليه، لأنه لما أدى الآخر صار الذي قبله آخرا".

‌‌(کتاب الصلاة، الفصل العشرون في قضاء الفائتة، ج : 1، ص : 533/39، ط :  دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144603103038

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں