ایک شخص جس کی کئی سال کی نماز یں فوت ہو گئی ہیں، اور اور اس نے قضائے عمری کی نیت کی ہے ،تو کیا رمضان مبارک میں وہ تراویح کی جگہ اپنی نماز دہرائے یا تراویح پڑھنا افضل ہے اور قضا نماز کو دوسرے وقت میں پڑھے، یہی سوال نماز کی سنتوں کے حوالے سے بھی ہے کہ کیا پہلے فرض نمازیں لوٹائے یا اگلی نماز کی سنتیں پڑہیں ؟
تراویح کی نماز سنت مؤکدہ ہے ، اور سنت مؤکدہ کے حوالے سے شریعت کا حکم یہ ہے کہ بغیر کسی شرعی عذر کے ان کو چھوڑنا اور اس کی عادت بنانا گناہ ہے ،لہذا صورت مسؤلہ میں قضائے عمری کے لیے نماز تراویح اور پانچ وقتہ نمازوں کی سنن مؤکدہ کو چھوڑ نا یا مؤخر کرنا درست نہیں ہے ،لہذانماز تراویح اور سنت مؤکدہ کو اپنے وقت میں پڑھےا ورقضائےعمری کو دوسرے اوقات میں پڑھے،البتہ اگر سنت غیر مؤکدہ اور نوافل کے ساتھ قضائے عمری ادا کرنا مشکل پڑھ رہاہو تو نوافل کی جگہ قضائے عمری ادا کرسکتے ہے، یاد رکھے کہ نوافل کو بھی مستقل طور پر چھوڑنا درست نہیں ہے، بلکہ کوشش کرکے قضائے عمری کے ساتھ نوافل بھی ادا کرتے رہنا چاہیے۔
فتاوی شامی میں ہے :
"وأما النفل فقال في المضمرات: الاشتغال بقضاء الفوائت أولى وأهم من النوافل إلا سنن المفروضة وصلاة الضحى وصلاة التسبيح والصلاة التي رويت فيها الأخبار.. اهـ. ط أي كتحية المسجد، والأربع قبل العصر والست بعد المغرب."
(كتاب الصلاة،باب قضاء الفوائت ، ج:2،ص:74، ط: سعید)
فتوی نمبر : 144609100345
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن