بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

کیا ردِ سحر کے لیے کسی پر جادو کرنا جائز ہے؟


سوال

ایک شخص عرصہ 12 سالوں سے جانی، مالی اور کاروباری لحاظ سے شدید مشکلات کا شکار ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے چند قریبی رشتہ داروں نے حسد، بغض و عناد کے باعث اس پر جادو اور سفلی عمل کروایا ہے، اس جادو کی وجہ سے سحر زدہ شخص ذہنی اور جسمانی اذیتوں سے بھی دوچار ہے اور اس نے اس سحر کا علاج بھی کروایا، مگر چند روز کے افاقے کے بعد دوبارہ اس سحر کا شکار ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ وہ ملک چھوڑنے پر بھی مجبور ہوگیا، اس کے باوجود جادو کا اثر مزید شدت اختیار کرتا چلا گیا۔ اب وہ جادو کی وجہ سے مقروض ہوچکا ہے اور کاروبار میں بھی بہت نقصان ہورہا ہے۔

جن رشتہ داروں نے جادو کروایا ہے وہ لوگ اس کا اقرار بھی کر رہے ہیں اور گواہوں کے ذریعے بھی اس کا ثبوت ہو جاتا ہے، اسی طرح جس عامل کے ذریعے جادو کروایا گیا ہے وہ بھی معلوم ہو جاتا ہے، اور وہ بھی اس پر جادو کرنے کا اعتراف کرلیتا ہے، تو ایسی صورت میں جب خلاصی کی کوئی صورت نہ ہو تو سحر زدہ شخص اپنی حفاظت اور بدلہ لینے کی غرض سے جادو کروانے والے رشتہ دار اور جادو کرنے والے عامل پر جادو کروا سکتا ہے یا نہیں؟ اور اس بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟ راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ سحر/جادو کی مختلف اقسام ہیں، بعض تو کفرِ محض ہیں اور بعض نہیں۔ سحر کی جو اقسام کفر ہیں ان سے مراد وہ اقسام ہیں جن میں شیاطین و جنات وغیرہ سے استعانت و امداد طلب کی جاتی ہے اور ان کو متصرف و مؤثر مانا جاتاہے یا جن میں قرآن شریف یا دوسرے اسلامی شعائر کی تو ہین کی جائے تو اس کا استعمال کرنا یا سیکھنا سکھانا ہر حال میں حرام ہے، خواہ دفعِ ضرر کے لیے ہو یا کسی اور غرض کے لیے، البتہ سحر کی جو قسم کسی کفریہ عقیدہ، کفریہ افعال یا کفریہ کلمات پر مشتمل نہ ہو، بلکہ خاص ادویہ وغیرہ سے یا کسی اور خفی طریق سے اثر ڈالا جاتا ہو تو اس کا استعمال اگر دوسروں کو بلاوجہ نقصان پہنچانے کے لیے کیا جائے تو وہ بھی حرام ہے اور اگر ردّ سحر یا دفعِ ضرر کے لیے کیا جائے تو یہ قسم جائز ہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں دائرۂ شریعت میں رہتے ہوئے سب سے پہلے اس جادو کا توڑ اور اس کی تاثیر ختم کرنے کی صحیح طرح سے کوشش کی جائے، جادو اور دیگر موذی چیزوں سے حفاظت کے واسطے پاکیزگی، نماز و تلاوتِ قرآنِ کریم اور مسنون دعاؤں کا اہتمام کیا جائے،  اور جن رشتہ داروں اور عامل نے آپ کے خلاف جادو کرنے اور کروانے کے عمل میں حصّہ لیا ہے، حتی الامکان ان سے بھی معافی اور درگذر کا معاملہ کیا جائے، اور اگر اس جادو کے توڑ میں اسی عامل سے مدد اور راہ نمائی لی جائے تو یہ مناسب ہوگا۔ نیز سائل کو چاہیے کہ اپنے ان رشتہ داروں اور عامل کو اس قسم کے افعال جن سے اسے نقصان پہنچتا ہو روکے، لیکن اس کے باوجود یہ رشتہ دار اور عامل بدستور اس کام میں لگے رہیں اور اس سے باز نہ آئیں تو صرف دفعِ ضرر اور جان بچانے کی غرض سے جوابی عمل کے طور پر ان کے خلاف جادو کے قسمِ دوم (غیر کفریہ جادو) کا استعمال جائز ہوگا، اور اگر جان بچانے کی کوئی دوسری صورت نہ ہو تو نا جائز سمجھتے ہوئے  قسمِ اول کے استعمال کی گنجائش بھی ہو سکتی ہے، مگر خلافِ اولیٰ ہے، اس کے باوجود یہ ضروری ہوگا کہ دل میں عقیدہ اسلامیہ کے خلاف کوئی عقیدہ نہ رکھے، صرف زبان سے کلمات کہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وفي ذخيرة الناظر تعلمه فرض لرد ساحر أهل الحرب، وحرام ليفرق به بين المرأة وزوجها، وجائز ليوفق بينهما. اهـ....... فهذه أنواع السحر الثلاثة، قد تقع بما هو كفر من لفظ أو اعتقاد أو فعل، وقد تقع بغيره كوضع الأحجار. وللسحر فصول كثيرة في كتبهم. فليس كل ما يسمى سحرا كفرا، إذ ليس التكفير به لما يترتب عليه من الضرر بل لما يقع به مما هو كفر كاعتقاد انفراد الكواكب: بالربوبية أو إهانة قرآن أو كلام مكفر ونحو ذلك اهـ ملخصا، وهذا موافق لكلام إمام الهدى أبي منصور الماتريدي، ثم إنه لا يلزم من عدم كفره مطلقا عدم قتله؛ لأن قتله بسبب سعيه بالفساد كما مر. فإذا ثبت إضراره بسحره ولو بغير مكفر: يقتل دفعا لشره كالخناق وقطاع الطريق."

(مقدمة، مطلب السحر أنواع، ج:1، ص:45، ط:ايج ايم سعيد)

و فيه أيضاً:

"(و) الكافر بسبب اعتقاد (السحر) لا توبة له (ولو امرأة) في الأصح.

مطلب في الساحر والزنديق (قوله والكافر بسبب اعتقاد السحر) في الفتح: السحر حرام بلا خلاف بين أهل العلم، واعتقاد إباحته كفر. وعن أصحابنا ومالك وأحمد يكفر الساحر بتعلمه وفعله سواء اعتقد الحرمة أو لا ويقتل وفيه حديث مرفوع «حد الساحر ضربة بالسيف» يعني القتل وعند الشافعي لا يقتل ولا يكفر إلا إذا اعتقد إباحته. وأما الكاهن، فقيل هو الساحر، وقيل هو العراف الذي يحدث ويتخرص، وقيل من له من الجن من يأتيه بالأخبار. وقال أصحابنا: إن اعتقد أن الشياطين يفعلون له ما يشاء كفر لا إن اعتقد أنه تخييل، وعند الشافعي إن اعتقد ما يوجب الكفر مثل التقرب إلى الكواكب وأنها تفعل ما يلتمسه كفر. وعند أحمد حكمه كالساحر في رواية يقتل، وفي رواية إن لم يتب، ويجب أن لا يعدل عن مذهب الشافعي في كفر الساحر والعراف وعدمه. وأما قتله فيجب ولا يستتاب إذا عرفت مزاولته لعمل السحر لسعيه بالفساد في الأرض لا بمجرد علمه إذا لم يكن في اعتقاده ما يوجب كفره. اهـ. وحاصله أنه اختار أنه لا يكفر إلا إذا اعتقد مكفرا، وبه جزم في النهر، وتبعه الشارح، وأنه يقتل مطلقا إن عرف تعاطيه له، ويؤيده ما في الخانية: اتخذ لعبة ليفرق بين المرء وزوجه. قالوا: هو مرتد ويقتل إن كان يعتقد لها أثرا ويعتقد التفريق من اللعبة لأنه كافر. اهـ. وفي نور العين عن المختارات: ساحر يسحر ويدعي الخلق من نفسه يكفر ويقتل لردته. وساحر يسحر وهو جاحد لا يستتاب منه ويقتل إذا ثبت سحره دفعا للضرر عن الناس. وساحر يسحر تجربة ولا يعتقد به لا يكفر. قال أبو حنيفة: الساحر إذا أقر بسحره أو ثبت بالبينة يقتل ولا يستتاب منه، والمسلم والذمي والحر والعبد فيه سواء."

(كتاب الجهاد، باب المرتد، ج:4، ص:240، ط:ایج ایم سعيد)

الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ میں ہے:

"اتفق الفقهاء على أن الاستئجار لعمل السحر لا يحل إن كان ذلك النوع من السحر حراما - على الخلاف المتقدم بينهم في حكمه - ولا تصح الإجارة، ولا تحل إعطاء الأجرة، ولا يحل لآخذها أخذها، واختلفوا في بعض التفصيلات:

فذهب الحنفية والمالكية إلى أن من استأجر ساحرا ليعمل له عملا هو سحر فالإجارة حرام ولا تصح، ولا يقتل المستأجر لأن فعله ذلك ليس بسحر، حتى لو قتل الساحر بسحره ذاك أحدا، ويؤدب المستأجر أدبا شديدا، واستثنى الحنفية والمالكية من يستأجر لحل السحر عن المسحور، فأجازوا ذلك - أي على القول بجواز حل السحر - لأنه من باب العلاج، وكذا أجاز الشافعية الإجارة على إزالة السحر نحو ما يحصل للزوج من الانحلال المسمى عند العامة بالربط. قالوا: والأجرة على من التزم العوض، سواء كان هو الرجل نفسه أو زوجته أو أحدا من أهلها أو أجنبيا.

وصرح الشافعية أيضا بأنه لا يصح الاستئجار لتعليم السحر ولا تستحق على تعليم السحر أجرة، ولا يصح بيع كتب السحر ويجب إتلافها.

وقال الحنابلة: لا تصح الإجارة على السحر إن كان محرما، أما إذا كان مباحا فلا مانع من الاستئجار عليه، كتعليم رقى عربية ليحل بها السحر. ولا تصح الوصية بكتب سحر لأنها إعانة على المعصية، ولا ضمان على من أتلف آلة سحر."

(‌‌سحر، الإجارة على فعل السحر أو تعليمه، ج:24، ص:269/268، ط:مطابع دار الصفوة مصر)

”الطب النبوی“ لابنِ قیم میں ہے:

"ومن أنفع علاجات السحر الأدوية الإلهية، بل هي أدويته النافعة بالذات، فإنه من تأثيرات الأرواح الخبيثة السفلية، ودفع تأثيرها يكون بما يعارضها ويقاومها من الأذكار، والآيات، والدعوات التي تبطل فعلها وتأثيرها، وكلما كانت أقوى وأشد، كانت أبلغ في النشرة «1» ، وذلك بمنزلة التقاء جيشين مع كل واحد منهما عدته وسلاحه، فأيهما غلب الآخر، قهره، وكان الحكم له، فالقلب إذا كان ممتلئا من الله مغمورا بذكره، وله من التوجهات والدعوات والأذكار والتعوذات ورد لا يخل به يطابق فيه قلبه لسانه، كان هذا من أعظم الأسباب التي تمنع إصابة السحر له، ومن أعظم العلاجات له بعد ما يصيبه."

(فصل في هديه صلى الله عليه وسلم في علاج السحر الذي سحرته اليهود به، ص:95/94، ط:دار الهلال بيروت)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144606100770

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں