بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا رمضان میں مرنے والے لیے عذاب میں تخفیف ہوتی ہے؟


سوال

 رمضان میں اگر موت آئے تو کیا حکم ہے؟  رمضان میں مردوں کو عذاب ہوتا ہے یا تخفیف ہوتی ہے عذاب میں؟

جواب

واضح رہے کہ بعض ضعیف روایات میں رمضان المبارک کے مہینہ میں انتقال کرنے والے  شخص کے لیے تخفیفِ عذاب کاذکر آیا ہے، اسی بناپر علماء کرام نے یہ تفصیل بیان  کی ہے  کہ رمضان المبارک میں اگرکوئی مومن فرماں  بردار شخص  انتقال کرجائے،تو اسے قبر میں عذاب نہیں ہوتا ،اسی طرح گناہ گار مومن رمضان المبارک   میں انتقال کرجائے،تو وہ بھی عذاب قبر سے محفوظ ہوگا۔اور اگر رمضان المبارک میں کوئی کافر مر جائے ،توماہِ رمضان کی برکت سے اسے اس مہینہ میں عذاب نہیں ہوتا، البتہ رمضان کامہینہ گزرنے کے بعد  اس پر عذاب ہوگا، البتہ عذابِ قبر کاختم ہوناقیامت  تک ہے یاصرف رمضان المبارک تک؟تو اس بارے میں علماء کی دونوں طرح کی رائے ملتی ہے، راجح یہی معلوم ہوتاہے کہ قیامت تک کے لیے مومن سے عذاب ختم کر دیا جاتاہے اور یہی اللہ کی رحمت سے امید بھی  ہے۔

شرح الصدور میں ہے:

"وأخرج البيهقي قال إبن رجب روي بإسناد ضعيف عن أنس بن مالك ‌أن ‌عذاب ‌القبر ‌يرفع عن الموتى في شهر رمضان."

(فصل فيه فوئد، ص:186، ط: دارالمعرفة)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله ويأمن الميت من عذاب القبر إلخ) قال أهل السنة والجماعة: عذاب القبر حق وسؤال منكر ونكير وضغطة القبر حق لكن إن كان كافرا فعذابه يدوم إلى يوم القيامة ويرفع عنه يوم الجمعة وشهر رمضان فيعذب اللحم متصلا بالروح والروح متصلا بالجسم فيتألم الروح مع الجسد، وإن كان خارجا عنه، والمؤمن المطيع لا يعذب بل له ضغطة يجد هول ذلك وخوفه والعاصي يعذب ويضغط لكن ينقطع عنه العذاب يوم الجمعة وليلتها ثم لا يعود وإن مات يومها أو ليلتها يكون العذاب ساعة واحدة وضغطة القبر ثم يقطع، كذا في المعتقدات للشيخ أبي المعين النسفي الحنفي من حاشية الحنفي ملخصا."

(كتاب الصلاة، باب الجمعة، ج:1، ص:165، ط:سعيد)

ملفوظات حکیم الامت میں ہے:

"ماہ رمضان میں انتقال کی فضیلت: فرمایا رمضان میں اگر انتقال ہو تو ایک قول یہ ہے کہ قیامت کے دن حساب نہیں ہوتا، یہی جی کو لگتا ہے اور "انا عند ظن عبدی بی" پر عمل کرے۔"

(ج:26، ص: 405، ط:ادارہ تالیفاتِ اشرفیہ)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144509102366

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں