ًکیا شیخ عبد الوہاب نجدی نے صحابہ کرام کی قبروں کو مسمار کیا تھا اور کیا شیخ عبد الوہاب نجدی گستاخِ صحابہ اور گستاخِ رسول تھے؟ براہ کرم وضاحت فرما دیں کیوں کہ کچھ لوگوں کے ذہنوں میں وہابیوں سے متعلق بہت سے ایسے سوالات ہیں، براہ کرم تسلی بخش جواب عنایت فرما دیں ۔
ہمارے علم کے مطابق شیخ عبد الوہاب نجدی رحمہٗ اللہ نہ صرف نیک،صالح، صوفی بزرگ اور بڑے عالم تھےبلکہ اپنے زمانے میں عُیَیْنہ اور حریملہ کے قاضی بھی تھے،مزاراتِ مقدسہ کی مسماری کے پیچھے ان کے بیٹے شیخ محمد بن عبدالوہاب کی فکراور تحریک شامل تھی،اس بارے میں حضرت مولانامحمد منظور احمد نعمانی صاحب ؒ اپنے ایک رسالہ بنام ’’شیخ محمد بن عبد الوہاب اور ہندوستان کے علمائےحق‘‘میں تحریر فرماتے ہیں:
’’ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہ جاہل عوام ’’عبد الوہاب نجدی‘‘ ہی كو ’’وہابیت‘‘ کا موجد اور اصل مجرم جانتے تھے اور انہی کو گالیاں دے کر دل کا بخار نکالتے تھے،یہ اس بات سے بالکل نا واقف تھے کہ بزرگوں کی قبروں پر بنے ہوئے قبّوں کو توڑنے والی اور قبروں کو سجدہ کرنے ، نذر نیاز چڑھانے، اُن سے مرادیں مانگنے اور اس طرح کے دوسرے مشرکانہ اعمال و اطوار کے خلاف علم جہاد بلند کرنے والی شخصیت دراصل شیخ عبد الوہاب کے بیٹے شیخ محمد کی تھی، جو تاریخ میں شیخ محمد بن عبدالوہاب کے نام سے معروف ہیں، اُن کے والد شیخ عبد الوہاب حنبلی بھی اگرچہ اپنے وقت کے بڑے عالم اور فقیہ تھے اور عیینہ و حریملہ کے قاضی تھے ، لیکن وہ اپنے خاص سکون پسند مزاج کی وجہ سے اپنے بیٹے شیخ محمد کی برپاکی ہوئی ہنگامہ خیز تحریک اور جدو جہد سے عملاً الگ رہے،بلکہ انہوں نے اپنے کو الگ اور یکسو رکھنے کے لئے اپنے اصل وطن عیینہ کی سکونت ترک کر کے اسی علاقہ کے دوسرےقریبی شہرحریملہ میں سکونت اختیار کر لی تھی۔‘‘(ص:٣٥حاشیہ)
تاہم مزاراتِ مقدسہ کا انہدام چوں کہ بعض نصوص کے سہارے اورلوگوں کو قبروں سےمرادیں مانگنے اوردیگر مشرکانہ اعمال وافعال سے روکنے کےلیے کیاگیا تھا؛ اس لیے قبور کی مسماری کے اس عمل کو صحابہ کرام یا اولیاء کرام کی براہِ راست گستاخی کا عنوان اصولاً نہیں دیاجاسکتا،اس بارے میں حضرتؒ اپنے رسالہ کے صفحہ تیس پر تحریر فرماتے ہیں:
’’شیخ محمد بن عبد الوہاب کے بارے میں ایک دوسری یہ واقعی حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ اُن کی دعوت و تحریک صرف وعظ و نصیحت اور تصنیف و تالیف یا تبلیغی دوروں تک محدود نہیں تھی بلکہ جہاد بالسیف بھی اُس کا ایک جزء تھا،وہ قبروں کو سجدہ کرنے، نذر نیاز چڑھانے ، اُن سے مرادیں مانگنے اور اس طرح کے تمام مشرکانہ افعال کو بت پرستی کی طرح شرک اور ان کے مرتکبین کو مشرک قرار دیتے تھے ، اسی طرح تارکینِ صلوٰۃ (بے نمازیوں) کو [امام احمد بن حنبل کے مسلک کے مطابق] خارج از اسلام کا فر سمجھتے تھے،اور اس طرح کے سب لوگوں کے بارے میں جو اپنے کو مسلمان کہتے ہوں اور کسی طرح کے کفر یا شرک کے مرتکب ہوں اُن کا نقطۂ نظر اور رویہ (جو ان کی کتابوں میں پوری صراحت اور صفائی کے ساتھ لکھا ہے) یہ تھا کہ ان کو قرآن و حدیث کے حوالوں سے پہلے اللہ و رسول کا حکم پہنچایا جائے اور ناصحانہ طور پر سمجھانے کی کوشش کی جائے اور پوری طرح حجت کا اتمام کیا جائے ، اگر اس کے بعد بھی باز نہ آئیں تو پھر بشرط استطاعت ان کے خلاف جہاد کیاجائے۔۔۔ پھر ایک وقت آیا کہ انہوں نے بڑھ کر حرمین شریفین پر بھی قبضہ کر لیا اور وہاں بھی حکومت کی طاقت سے اپنے دینی و مذہبی نقطۂ نظر کے مطابق انہوں نے اصلاحات نافذ کیں، مزارات پر بنے ہوئے قبے تڑوائے اور اس طرح کے اور بھی اقدامات کیے۔(ص:٣٠)‘‘
سائل کواگر مزید کچھ معلومات درکار ہیں تو اس مکمل رسالے کامطالعہ کرنےسےامید ہے کہ علمی تشنگی دور ہوجائےگی۔
سنن الترمذي میں ہے:
"عن أبي وائل، أن عليا قال لأبي الهياج الأسدي: أبعثك على ما بعثني به النبي صلى الله عليه وسلم: أن لا تدع قبرا مشرفا إلا سويته، ولا تمثالا إلا طمسته."
(ص:٣٥٧،ج:٣،أبواب الجنائز،باب ما جاء في تسوية القبور،ط:ألبابي، مصر)
شرح المشکاۃ للطیبی میں ہے:
"وعن جابر، قال: نهي رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يجصص القبر، وأن يُبنى عليه، وأن يقعد عليه.
الحديث الخامس عن جابر رضي الله عنه: قوله: أن يبنى عليه: يحتمل وجهين أحدهما: البناء علي القبر بالحجارة وما يجرى مجراها، والآخر: أن يضرب عليه خباء أو نحوه، وكلاهما منهي عنه؛ لانعدام الفائدة فيه، ولأنه من صنيع أهل الجاهلية، وعن ابن عمر أنه رأي فسطاطاً علي قبر أخيه عبد الرحمن، فقال: انزعه يا غلام، فقال: إنما يظله عمله."
(ص:١٤٠٧،ج:٤،کتاب الجنائز،باب دفن المیت،ط:مکتبة نزار)
البحر الرائق میں ہے:
"(قوله ويسنم القبر، ولا يربع) ؛ لأنه عليه الصلاة والسلام نهى عن تربيع القبور ومن شاهد قبر النبي عليه الصلاة والسلام أخبر أنه مسنم في المغرب قبر مسنم مرتفع غير مسطح ويسنم قدر شبر وقيل قدر أربع أصابع، وما ورد في الصحيح من حديث علي أن لا أدع قبرا مشرفا إلا سويته فمحمول على ما زاد على التسنيم."
(ص:٢٠٩،ج:٢،کتاب الجنائز،ط:دار الکتاب الإسلامي)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144505101225
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن