بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 ذو القعدة 1446ھ 29 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

کیا ٹینکر کے ڈرائیور کےلیے ٹینکر میں بچا ہوا پانی بیچنا جائز ہے؟


سوال

(۱) یوسف سعودی عرب میں ڈرائیور ہے،  اور وہ پانی کی ٹینکی میں پانی گھروں تک لے جاتا ہے،  کبھی ٹینکی میں پانی رہ جاتاہے،  پھر اس پانی کو یا تو ضائع کردیتے ہیں یا وہ پانی بلدیہ والوں کو 30 ریال پر بیچ دیتے ہیں، کیا یہ پیسے یوسف کےلیے جائز ہیں؟ کیونکہ اگر وہ پانی فروخت نہ کرے تو اسے ضائع کرنا پڑتا ہے۔

(۲) دوسرا سوال یہ ہے کہ کبھی یوسف مکمل ٹینکی کا پانی بلدیہ والوں پر بیچ دیتا ہے،  اور وہ کہتا ہے کہ مجھے مدیر دیکھتا بھی ہے کہ یہ پانی فروخت کررہاہے، تو  کیا ایسا کرنا اس کےلیے جائز ہے؟ ملحوظ رہے کہ یوسف کمپنی کا ملازم ہے، اور اس کی یہ ڈیوٹی ہے کہ وہ گھروں تک پانی لے جایا کرے۔

جواب

(۱) صورتِ مسئولہ میں جو پانی ٹینکی میں بچ جاتا ہے وہ کمپنی کی ملکیت ہے، وہ پانی واپس کمپنی کے حوالے کرنا لازم ہے، چاہے کمپنی اسے ضائع کرے یا استعمال کرے، البتہ اگر کمپنی کا اصل مالک یوسف کو باقاعدہ زبانی طور پر یہ اجازت دے دے کہ بچا ہوا پانی بیچ کر وہ رقم خود استعمال کر لوتو پھر  بیچنا جائز ہوگا۔

(۲) مدیر اگر کمپنی کا مالک نہیں ہے، صرف نگران اور ملازم ہے، تو  اس کی اجازت کا شرعاً کوئی اعتبار نہیں ہوگا، اور اگر وہ کمپنی کا مالک ہے، تو اس صورت میں بھی یوسف کےلیے یہ پانی بیچنا تب جائز ہوگا، جب وہ اسے باقاعدہ اجازت دے، صرف منع نہ کرنے سے کمپنی کا پانی فروخت کرنا جائز نہیں ہوگا۔

کمپنی کے مالک کی طرف سے صراحتاً پانی فروخت کرنے کی اجازت کے بغیر جو پانی یوسف نے اب تک فروخت کیا ہو، اس کی رقم کمپنی کے مالک کو واپس کرنا یوسف کےلیے ضروری ہوگی، پس یوسف یا تو وہ رقم مالک کو واپس کردے یا مالک سے معاف کروالے، ورنہ یہ رقم یوسف کے ذمہ واجب الاداء  رہے گی۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"(فصل) : وأما بيان ركن التوكيل. فهو الإيجاب والقبول فالإيجاب من الموكل أن يقول: " وكلتك بكذا " أو " افعل كذا " أو " أذنت لك أن تفعل كذا " ونحوه. والقبول من الوكيل أن يقول: "قبلت " وما يجري مجراه، فما لم يوجد الإيجاب والقبول لا يتم العقد."

(کتاب الوكالة، فصل في بيان ركن التوكيل، ج:7، ص:426، ط:دار الكتب العلمية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"سكوته عند رؤية غيره يشق زقه حتى سال ما فيه رضا لكن اعترض بما في الأشباه أيضا: لو رأى غيره يتلف ماله فسكت لا يكون إذنا بإتلافه."

(كتاب الوقف، مطلب المواضع التي يكون فيها السكوت كالقول، ج:4،ص:482، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144605100557

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں