کیا زکوة لینے والا خود کسی سے زکوة مانگ سکتا ہے؟
واضح رہے کہ جس آدمی کے پاس ایک دن کا کھانا ہو اس کے لیے لوگوں سے مانگنا جائز نہیں ہے خواہ وہ زکات کا مستحق کیوں نہ ہو، اسی طرح جو شخص کمانے پر قدرت رکھتا ہو اسے بھی سوال کرنے کی اجازت نہیں ہے، البتہ اگر کسی شخص پر فاقہ ہو یا کھانے پینے کے علاوہ واقعی کوئی سخت ضرورت پیش آگئی ہو جس کی وجہ سے وہ لوگوں سے مانگنے پر مجبور ہو تو بقدر ضرورت سوال کرنے کی گنجائش ہے۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر زکات لینے والا شخص واقعۃً زکات کا مستحق ہے لیکن اس پر فاقہ نہیں ہے یا کوئی شدید ضرورت نہیں ہے تو اس کے لیے زکات کا سوال کرنا جائز نہیں ہے، البتہ اگر کوئی خود سے اسے زکات دے دے تو مستحق ہونے کی بنا پر اس کے لیے زکات لینا جائز ہوگا۔
صحیح مسلم میں ہے:
"عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من سأل الناس أموالهم تكثرا، فإنما يسأل جمرا فليستقل، أو ليستكثر ".
(كتاب الزكاة، باب كراهة المسألة للناس، 3/ 96 ، ط:دار الطباعة العامرة)
الدر المختار میں ہے:
"(ولا) يحل أن (يسأل) من القوت (من له قوت يومه) بالفعل أو بالقوة كالصحيح المكتسب ويأثم معطيه إن علم بحاله لإعانته على المحرم (ولو سأل للكسوة) أو لاشتغاله عن الكسب بالجهاد أو طلب العلم (جاز) لو محتاجا".
وفي الرد:
"(قوله: ولا يحل أن يسأل إلخ) قيد بالسؤال؛ لأن الأخذ بدونه لا يحرم بحر، وقيد بقوله شيئا من القوت؛ لأن له سؤال ما هو محتاج إليه غير القوت كثوب شرنبلالية.
وإذا كان له دار يسكنها ولا يقدر على الكسب قال ظهير الدين: لا يحل له السؤال إذا كان يكفيه ما دونها معراج، ثم نقل ما يدل على الجواز وقال وهو أوسع وبه يفتى (قوله: كالصحيح المكتسب) ؛ لأنه قادر بصحته واكتسابه على قوت اليوم بحر".
(كتاب الزكاة، باب مصرف الزكاة والعشر2/ 354، ط: سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144608102147
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن