بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

کن لوگوں کو سلام نہیں کرنا چاہیے؟


سوال

کن لوگوں کو سلام نہیں کر سکتے ؟

جواب

بعض مقامات ایسے ہیں کہ وہاں سلام کرنے سے منع کیا گیا ہے، فقہاء اور شارحین حدیث نے اس پر تفصیل سے گفتگو کی ہے، علامہ حصکفی ؒ نے اس سلسلہ میں صدر الدین غزی رحمہ اللہ کے سات اشعار نقل کیے ہیں اور اس پر اپنے ایک شعر کا اضافہ کیا ہے، ان اشعار میں بڑی حد تک ان مواقع کو جمع کر لیا گیا ہے جہاں سلام نہیں کرنا چاہیے، ان اشعار میں جن لوگوں کا ذکر ہے، وہ یوں ہیں:

نماز، تلاوتِ قرآن مجید اور ذکر میں مصروف شخص، جو حدیث پڑھا رہا ہو، کوئی بھی خطبہ دے رہا ہو، مسائلِ فقہ کا تکرار و مذاکرہ، جو مقدمہ کے فیصلہ کے لیے بیٹھا ہو، اذان دے رہا ہو، اقامت کہہ رہا ہو، درس دے رہا ہو، اجنبی جوان عورت کو بھی سلام نہ کرنا چاہیے کہ اس میں فتنہ کا اندیشہ ہے، شطرنج کھیلنے والے اور اس مزاج و اخلاق کے لوگ جیسے جو لوگ جوا کھیلنے میں مشغول ہوں، جو اپنی بیوی کے ساتھ بے تکلف کیفیات میں ہو، کافر اور جس کا ستر کھلا ہوا ہو، جو پیشاب پائخانہ کی حالت میں ہو، اس شحص کو جو کھانے میں مشغول ہو، ہاں اگر کوئی شخص بھوکا ہو اور توقع ہو کہ سلام کی وجہ سے وہ شریک دسترخوان کر لے گا تو اس کو سلام کر سکتا ہے، گانے بجانے اور کبوتر بازی وغیرہ میں مشغول شخص کو بھی سلام نہیں کرنا چاہیے، اس کے علاوہ اور بھی کچھ صورتیں ہیں۔

خلاصہ یہ ہے کہ جو لوگ کسی اہم کام میں مشغول ہوں کہ سلام کرنے سے ان کے کام میں خلل واقع ہو، یا جو لوگ فسق و فجور میں مصروف ہوں، یا جن کو سلام کرنا تقاضۂ حیا کے خلاف ہو یا جنہیں سلام کرنے میں فتنہ کا اندیشہ ہو، ایسے لوگوں کو اور غیرمسلموں کو پہل کر کے سلام نہ کرنا چاہیے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وقد نظم الجلال الأسيوطي المواضع التي لا يجب فيها رد السلام ونقلها عنه الشارح في هامش الخزائن فقال:

رد السلام واجب إلا على ... من في الصلاة أو بأكل شغلا.

أو شرب أو قراءة أو أدعيه ... أو ذكر أو في خطبة أو تلبيه.

أو في قضاء حاجة الإنسان ... أو في إقامة أو الآذان.

أو سلم الطفل أو السكران ... أو شابة يخشى بها افتتان.

أو فاسق أو ناعس أو نائم ... أو حالة الجماع أو تحاكم.

أو كان في الحمام أو مجنونا ... فواحد من بعدها عشرونا."

(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)، كتاب الصلاة، باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، 1/ 618، ط: سعيد)

وفيه أيضا: 

"یکره السلام علی العاجز عن الجواب حقیقةً کالمشغول بالأکل أو الاستفراغ، أو شرعاً کالمشغول بالصلاة وقراءة القرآن، ولو سلم لایستحق الجواب".

( کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا،۱/ ۶۱۷، ط: سعید)

وفيه أيضا:

"(قوله: كآكل) ظاهره أن ذلك مخصوص بحال وضع اللقمة في الفم والمضغ، وأما قبل وبعد فلايكره؛ لعدم العجز، وبه صرح الشافعي، وفي وجيز الكردري: مر على قوم يأكلون إن كان محتاجاً وعرف أنهم يدعونه سلم وإلا فلا اهـ. وهذا يقضي بكراهة السلام على الآكل مطلقاً إلا فيما ذكره".

(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)، 6/ 415، ط: سعيد)

ہندیہ میں ہے:

"السلام تحية الزائرين، والذين جلسوا في المسجد للقراءة والتسبيح أو لانتظار الصلاة ما جلسوا فيه لدخول الزائرين عليهم، فليس هذا أوان السلام فلا يسلم عليهم، ولهذا قالوا: لو سلم عليهم الداخل وسعهم أن لا يجيبوه، كذا في القنية.

يكره السلام عند قراءة القرآن جهراً، وكذا عند مذاكرة العلم، وعند الأذان والإقامة، والصحيح أنه لا يرد في هذه المواضع أيضاً، كذا في الغياثية."

(الفتاوى الهندية، كتاب الكراهية، الباب السابع في السلام وتشميت العاطس، 5/ 325، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310101034

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں