بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

کرایہ پر لی ہوئی چیز آگے کرایہ پردینا


سوال

  میں نے ایک گودام کرایہ پر لیاہے پچاس ہزار  روپے فی مہینہ پر  اب میں نے یہ گودام آگے دوسرے شخص یعنی زید کو پچپن ہزار  روپے کرایہ پر  دیا، اب زید خود مالک مکان کے  پاس گیا اور براہ راست معاملہ کرنا چاہا کہ میں یہی پچپن ہزار آپ کو دوں گا ،تو میں نے مالک مکان سے کہا کہ یہ گودام آپ نے مجھے  کرایہ پر دیا پچاس ہزار پہ میں اس سے زیادہ نہیں دوں گاکرایہ واپس کم کروایا،  اب دوبارہ میں نے زید کوگودا  م کرایہ پر دیا  پچپن ہزار پر ۔اب سوال یہ ہے کہ کیا جو نفع میں لے رہا  ہوں یہ جائز ہے میرے لیے یانہیں؟

جواب

صورت مسئولہ میں کرایہ پر لیے ہوئے مکان وغیرہ کو آگے زائد رقم کے ساتھ کرایہ پر دے کر اس پر نفع کماناجائزنہیں ہے،ہاں دو صورتوں میں وہ پہلے کرایہ سے زیادہ پر بھی آگے کرایہ پر دے سکتا ہے :

(1) دوسرا کرایہ پہلے کی جنس میں سے نہ ہو، یعنی پہلے کرایہ روپے میں ہو تو یہ آگے روپے کے بجائے ڈالر یا ریال یاکسی اور چیز پر کرایہ مقرر کرے۔

(2) کرایہ دار نے اس کرایہ کی دکان میں کچھ اضافی کام (مثلاً رنگ،  ٹائلز، یا اس میں کوئی اضافہ ) کرایا ہو، تو ایسی صورت میں وہ پہلے کرایہ سے زیادہ پر بھی دوسرے کو دے سکتا ہے اور زائد رقم حلال ہوگی۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإذا استأجر دارا وقبضها ثم آجرها فإنه يجوز إن آجرها بمثل ما استأجرها أو أقل، وإن آجرها بأكثر مما استأجرها فهي جائزة أيضا إلا إنه إن كانت الأجرة الثانية من جنس الأجرة الأولى فإن الزيادة لا تطيب له ويتصدق بها، وإن كانت من خلاف جنسها طابت له الزيادة ولو زاد في الدار زيادة كما لو وتد فيها وتدا أو حفر فيها بئرا أو طينا أو أصلح أبوابها أو شيئا من حوائطها طابت له الزيادة، وأما الكنس فإنه لا يكون زيادة."

(الفتاوى الهنديہ،کتاب الاجارہ،باب فی اجارہ المستاجر،ج:4،ص: 425 دار الفکر بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508102036

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں