بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 ذو الحجة 1445ھ 02 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

کرایہ کا مکان خالی کرنا ہو تو عورت عدت کہاں گزارے گی؟


سوال

اگر کرائے کے مکان میں رہتے ہوئے طلاق ہو جائے اور مکان خالی کرنا ہو تو عورت عدت کہاں گزارے،  جب کہ عورت شوہر کے آبائی گاؤں کے گھر میں نہیں رہنا چاہتی؟

جواب

واضح رہے کہ طلاق ہوجانے پر بیوی کے لیے شوہر کے گھر عدت گزارنا  اور شوہر پر اس کو عدت کے دوران رہائش فراہم کرنا واجب ہے؛  لهذا صورتِ مسئولہ میں کسی عذر کے بغیر صرف عورت كو  اذيت دینے کے  لیے رہائش سے محروم کرنا جائز نہیں، ایسی صورت میں اگر عورت خود کرایہ دینے کی استطاعت رکھتی ہو، تو کرایہ خود برداشت کرے اور عدت ختم ہونے تک اسی گھر میں  رہے۔اور اگرکسی عذر کی وجہ سے کرایہ کا مکان خالی کرنا ضروری ہو اور شوہر  کا آبائی گھر سفر شرعی  کی  مسافت (سوا ستتر کلومیٹر)  پر  یا اس سے بھی دور واقع  ہو،  یا شوہر کا آبائی گھر قریب ہو لیکن عورت اکیلي ہو، اور اس میں وحشت محسوس کرتی ہو، یا اس میں اس کی جان و مال یا عزت وآبرو کو خطرہ ہو تو ایسی صورت میں شوہر پرموجودہ  سکونت  والے علاقے میں عورت کو  کسی دوسرے مکان میں رہائش فراہم کرنا ضروری ہے۔  اگر شوہر ایسا نہیں کرتا تو وہ شرعًا  گناہ گار ہوگا،  اور ایسی صورت میں مجبورًا عورت اس علاقہ میں اپنے کسی   محرم رشتہ دار/  قریبی رشتہ دار  کے گھر   عدت گزارے یا ایسی جگہ عدت گزارے جہاں اس کا عزت وآبرو محفوظ ہو ۔

احکام القرآن للجصاص میں ہے:

قال الله تعالى:{أسكنوهن من حيث سكنتم من وجدكم} الآية. قال أبو بكر: اتفق الجميع من فقهاء الأمصار وأهل العراق ومالك والشافعي على وجوب السكنى للمبتوتة، وقال ابن أبي ليلى: "لا سكنى للمبتوتة إنما هي للرجعية".

(أحكام القرآن للجصاص: سورة الطلاق، باب السكنى للمطلقة (3/ 613)،ط.  دار الكتب العلمية بيروت - الطبعة: الأولى، 1415هـ/1994م)

النہر الفائق میں ہے:

(بانت أو مات عنها في سفر وبينها وبين مصر أقل من ثلاثة أيام رجعت إليه) سواء كان من مصر أو لا إذ ليس في ذلك إنشاء سفر قيل ثم إذا كان مقصدها ثلاثة أيام ولو أقل خيرت والرجوع أولى ليكون الاعتداد في منزل الزوج، وفي (المبسوط) عليها أن ترجع أيضًا لأنها تصير مقيمة بالرجوع وبالمعنى تصير مسافرة وإطلاق المصنف يقتضية، قال في (الفتح): وهو أوجه (ولو) كان بينها وبين مصرها (ثلاثة) أيام وبينهما وبين مقصدها كذلك (رجعت) أي: عادت إلى منزلها (أو مضت) إلى مقصدها والرجوع أولى (معها ولى أو لا) قيد راجع إلى الصورتين، (ولو) كانت (في مصر تعتد ثمة) أي: في المصر عند الإمام سواء كان معها محرم أو لا، وقالا: إن كان معها (محرم تخرج) وإلا فلا، وفي (البدائع) وغيرها لو كان بين الجهتين مدة سفر فمضت أو رجعت وبلغت أدنى مواضع التي تصلح للإقامة أقامت فيه واعتدت إن لم تجد محرمًا بلا خلاف، وكذا إن وجدت عند الإمام قيد بالبائن لأن معتدة الرجعي تابعة لزوجها والله الموفق.

(النهر الفائق: كتاب الطلاق، باب العدة، فصل في الحداد (2/ 491)،ط.  دار الكتب العلمية، الطبعة: الأولى، 1422هـ - 2002م)

فتاوی شامی میں ہے:

(قوله: أو لا تجد كراء البيت) أفاد أنها لو قدرت عليه لزمها من مالها، وترجع به المطلقة على الزوج إن كان بإذن الحاكم كما مر.

(حاشیة ابن عابدین علي الدر المختار: كتاب الطلاق، باب العدة  ، فصل في الحداد (3/ 536)،ط. سعيد)

وفیہ ایضا:

(قوله: وليس للزوج إلخ) أي: ليس له إذا طلقها في منزلها أن يسافر بها.

(حاشیة ابن عابدین علي الدر المختار: كتاب الطلاق، باب العدة  ، فصل في الحداد (3/ 538)،ط. سعيد)

فقط، واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212201406

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں