بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1446ھ 18 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

کرایہ کی گاڑی پر زکاۃ


سوال

دو یا تین رینٹ کی گاڑی پر زکوة ہے؟

جواب

کرایہ پر دینے کی غرض سے خریدی گئی گاڑیوں کی مالیت پر زکاۃ لازم  نہیں ہوتی، لہذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ گاڑیوں کی ویلیو پر زکات لازم نہیں ہوگی، البتہ ان گاڑیوں  سے حاصل ہونے والی کرایہ کی رقم تنہا یادیگر اموال کے ساتھ مل کر نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت) کو پہنچ جائے، تو زکاۃ کا سال مکمل ہونے پر اس کی زکات لازم ہوگی،  اور سال بھر میں جتنا کرایہ استعمال کرلیا اس پر کوئی زکاۃ لازم نہیں ہوگی۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولو اشترى قدورًا من صفر يمسكها ويؤاجرها لاتجب فيها الزكاة كما لا تجب في بيوت الغلة".

(کتاب الزکاۃ ،الباب الثالث في زكاة الذهب والفضة والعروض،1 / 180 ط:دار الفكر)

وفي الفقه الإسلامي وأدلته:

"‌‌المطلب الأول ـ زكاة العمارات والمصانع ونحوها:

اتجه رأس المال في الوقت الحاضر لتشغيله في نواحٍ من الاستثمارات غير الأرض والتجارة، وذلك عن طريق إقامة المباني أو العمارات بقصد الكراء، والمصانع المعدة للإنتاج، ووسائل النقل من طائرات وبواخر (سفن) وسيارات، ومزارع الأبقار والدواجن وتشترك كلها في صفة واحدة هي أنها لا تجب الزكاة في عينها وإنما في ريعها وغلتها أو أرباحها."

(‌‌الباب الرابع: الزكاة وأنواعها،ج:3،ص:1947،ط:دار الفكر،دمشق)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144609101536

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں