میں نے سنا ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے عناد کے ساتھ گناہ کرے تو اس کی توبہ قبول نہیں ہو گی، اس کا کیا مطلب ہے؟ یعنی اب وہ اگر اس سے توبہ کرنا چاہتا ہے تو توبہ ہوگی ہی نہیں؟
اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں ہی نزع (جان کنی) کی حالت سے پہلے اپنے گناہوں پر نادم و شرمندہ ہو جائے اور آئندہ گناہوں کے نہ کرنے کا عزم کر لے تو ایسے آدمی کی توبہ بلا شبہ قبول ہے اور ایسے آدمی کو اللہ تعالیٰ معاف فرما دیں گے بشرطیکہ حقوق العباد میں جو کوتاہی کی گئی ہو اس کی تلافی کی جائے، اسی طرح جو نماز، روزے اور حقوق اللہ اس کے ذمہ ہوں ان کو ادا کر لے، یا ان کی ادائیگی کا انتظام اور وصیت کرجائے۔
جن لوگوں کی توبہ قبول نہیں ہوتی وہ ایسے لوگ ہیں جو آثارِ موت کو دیکھنے کے بعد توبہ کریں، ایسے آدمی کی توبہ قبول نہیں ہوتی؛ کیوں کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ موت کی علامات ظاہر ہونے کے بعد کی گئی توبہ قبول نہیں ہوتی۔
آپ نے جو سنا ہے کہ ’’جو شخص اللہ تعالیٰ سے عناد کے ساتھ گناہ کرے تو اس کی توبہ قبول نہیں ہو گی‘‘، اس کا مطلب وہ ہے جو قرآنِ پاک میں وارد اس طرح کی آیات کے سیاق و سباق سے معلوم ہوتاہے، اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں عذاب یافتہ تباہ شدہ اقوام کا ذکر کرتے ہوئے کئی مواقع پر ارشاد فرمایا ہے کہ جو ہمارے نبیوں کی ضد و عناد میں جانتے بوجھتے، مخالفت پر کمربستہ رہتے ہیں، ہم انہیں گم راہی میں چھوڑے رکھتے ہیں اور ان کے دلوں پر مہر لگادیتے ہیں، انہیں (ان کے نہ چاہتے ہوئے ہم زبردستی) توبہ کی توفیق نہیں دیتے، وہ آنکھوں سے دیکھتے اور کانوں سے سنتے ہیں، لیکن دل کی نگاہیں اندھی اور کان بہرے ہوجاتے ہیں، یہاں تک کہ وہ عذاب میں مبتلا کیے جاتے ہیں، یعنی ابوجہل، ابولہب، فرعون اور اس طرح کے کفار جو خود بھی ضد پر قائم رہے اور اپنی قوموں کو بھی کفر پر قائم رکھنے کا باعث ہوئے۔ ایسے لوگوں کو دنیا میں آفات کے ذریعے تنبیہ بھی کی جائے تو وہ رجوع الی اللہ نہیں کرتے، بلکہ تاویلات کرتے ہیں یا دکھلاوے کا رجوع ظاہر کرتے ہیں اور مصیبت ٹلنے پر پھر پہلی حالت کی طرف لوٹ جاتے ہیں، جیسے فرعون اور اس کی قوم کو اللہ تعالیٰ نے لگاتار پانچ عذابوں میں پکڑا اور وہ ہر مرتبہ کہتے کہ ہم توبہ کریں گے آپ یہ عذاب ہٹوادیجیے، ہر عذاب ہٹنے کے بعد وہ پہلے کی طرح ہوجاتے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ہمیشہ کے لیے عبرت بنادیا اور فرمایا کہ انہوں نے یقین آجانے کے بعد بھی زیادتی اور سرکشی کرتے ہوئے (عناداً) انکار کیا، تو دیکھو مفسدین کا انجام کیا ہوا۔
وجہ اس کی یہ ہے کہ جو سچے دل سے توبہ نہ کرے، دل میں ضد رکھے تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہ کیسے معاف فرمائیں گے! وہ تو علیم بذات الصدور (دلوں کے پوشیدہ احوال جاننے والے) ہیں، لہذا اگر کوئی شخص سچے دل سے اپنے گناہوں سے توبہ کر لے تو اس کی توبہ اللہ تعالیٰ ضرور قبول فرماتے ہیں، جیساکہ بہت سے کفارِ مکہ کو اللہ تعالیٰ نے ایمان کی توفیق دی، وہ صحابی بنے اور رسول اللہ ﷺ کے سچے عاشق بھی بنے، بعد اس کے کہ پہلے وہ رسول اللہ ﷺ کے سخت دشمن تھے۔
صفوة التفاسير (1/ 243):
"{إِنَّمَا التوبة عَلَى الله لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السواء بِجَهَالَةٍ} أي إِنما التوبة التي كتب الله على نفسه قبولها هي توبة من فعل المعصية سفهاً وجهالة مقدَّراً قبح المعصية وسوء عاقبتها ثم ندم وأناب {ثُمَّ يَتُوبُونَ مِن قَرِيبٍ} أي يتوبون سريعاً قبل مفاجأة الموت {فأولئك يَتُوبُ الله عَلَيْهِمْ} أي يتقبل الله توبتهم {وَكَانَ الله عَلِيماً حَكِيماً} أي عليماً بخلقه حكيماً في شرعه {وَلَيْسَتِ التوبة لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السيئات حتى إِذَا حَضَرَ أَحَدَهُمُ الموت قَالَ إِنِّي تُبْتُ الآن} أي وليس قبول التوبة ممن ارتكب المعاصي واستمر عليها حتى إِذا فاجأه الموت تاب وأناب فهذه توبة المضطر وهي غير مقبولة وفي الحديث: «إِن الله يقبل توبة العبد ما لم يغرغر»".
اور توبہ کا دروازہ اس وقت تک کھلا رہے گا جب تک قیامت کی صبح سورج مغرب سے طلوع نہ ہو جائے، جس دن سورج مغرب سے طلوع ہو جائے گا اس کے بعد توبہ قبول نہیں ہو گی۔
مسند أحمد ت شاكر (7/ 424):
"عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: "من تاب قبل أن تَطْلُعَ الشمسُ من مغربها قُبِلَ منه".
اسی طرح روایات میں آتا ہے کہ ہر آدمی کو معاف کر دیا جائے گا سوائے مجاہرین کے یعنی ان لوگوں کو معاف نہیں کیا جائے گا جو اپنے گناہوں کو خود ظاہر کرتے ہیں، لہذا اپنے گناہوں کا اظہار بھی گناہ ہے جو لائقِ معافی نہیں، اس سے بھی توبہ کر لی جائے تو اللہ تعالیٰ معاف کر دیں گے۔
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (7/ 3035):
"وعن أبي هريرة - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " «كل أمتي معافى إلا المجاهرون». ورواه الطبراني في الأوسط عن أبي قتادة ولفظه: " «كل أمتي معافى إلا المجاهر الذي يعمل العمل بالليل فيستره ربه ثم يصبح فيقول: يا فلان! إني عملت البارحة كذا وكذا فيكشف ستر الله عز وجل»".
عمدة القاري شرح صحيح البخاري (10/ 173):
"ومن أمثلة المحذوف الخبر قوله صلى الله عليه وسلم: (كل أمتي معافى إلا المجاهرون) . أي: لكن المجاهرون بالمعاصي لايعافون".
فتح الباري لابن حجر (10/ 487):
"والمجاهر الذي أظهر معصيته وكشف ما ستر الله عليه فيحدث بها".
فيض القدر لزيد المناوي (13/ 214):
"(كل أمتي معافى) اسم مفعول من العافية وهو إما بمعنى عفى الله عنه وإما سلمه الله وسلم منه (إلا المجاهرين) أي المعلنين بالمعاصي المشتهرين بإظهارها الذين كشفوا ستر الله عنهم". فقط و الله أعلم
فتوی نمبر : 144107201097
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن