بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

کسی کو زکات ادا کرنے کا وکیل بنانا


سوال

1۔اگر ایک شخص مجھے زکوۃ کی رقم آگے مستحق کو دینے کے لئے دیتا ہے؛ تو کیا میں اسے اپنے اکاؤنٹ میں ڈال سکتا ہوں؟ . جب کہ اس میں میری ذاتی رقم بھی پہلے سے موجود ہے۔

2۔نیز اگر اس شخص نے خود ہی میرے اکاؤنٹ میں پیسے بھیجے  تو پھر اس صورت میں کیا حکم ہوگا؟ 

3۔اگر میں اکاؤنٹ سے رقم نہ نکالوں بلکہ اپنے پاس سے اس کی طرف سے دینے کی نیت سے دوسری رقم دے دوں؛ تو کیا حکم ہے؟

جواب

1۔صورت مسئولہ میں  مذکورہ رقم مستحقین زکات کو ادا کرنا ضروری ہے، بلا کسی شرعی ضرورت کے اکاؤنٹ میں ڈالنا منع ہے۔

2۔اگر دوسرا آدمی آپ کے اکاونٹ میں زکوٰۃ کی رقم بھیجے تو یہ بھی جائز ہے،البتہ جب تک مستحق زکات کو زکات کی رقم نہیں ملے گی تب تک زکات ادا نہیں ہوگی۔

3۔اگر دوسرے کی زکوٰۃ کی رقم اکاونٹ میں موجود ہے تو اس کو نکال کر مستحق کو دینا چاہیۓ تاہم اگر کسی عذر شرعی کی وجہ سے اکاؤنٹ سے نہ نکالے  تو اس صورت میں دوسرے آدمی کی زکوٰۃ کی نیت سے اس رقم کے بدلے میں اپنی ذاتی رقم مستحق کو دینے سے بھی زکوٰۃ ادا ہوجائےگی۔

احسن الفتاوی میں ہے:

”سوال:ایک شخص نے کسی دوسرے شخص کو زکوٰۃ یا دوسرے صدقات واجبہ کی مد سے کوئی رقم مساکین کو دینے کے لئے دی، اس وکیل نے وہ رقم بدل دی، مثلاً اس میں دس دس روپیہ کے دس نوٹ لے لئے، اور سوروپیہ کا ایک نوٹ اس میں رکھ دیا، کیا ایسا کرنا جائز ہے؟یا جو رقم ملی ہے وہی مساکین کو دینا ضروری ہے؟

جواب:زکوٰۃ بہر حال اداء ہوجائے گی، البتہ تبدیل کا جواز اس پر موقوف ہے کہ مؤکل کی طرف سے تبدیل کا اذن صراحۃً یا دلالۃً موجود ہو، موجودہ عرف مین اس کی اجازت ہے، اس لئے صراحۃً اذن کی ضرورت نہیں ، مع ہٰذا صراحۃً اجازت لے لینا بہتر ہے۔“

(کتاب الزکوٰة ، بعنوان: وکیل کا رقم زکوٰة میں رد و بدل کرنا، ج:4، ص:299/ 300، ط: ایچ ایم سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"إذا وكل في أداء الزكاة أجزأته النية عند الدفع إلى الوكيل فإن لم ينو عند التوكيل ونوى عند دفع الوكيل جاز كذا في الجوهرة النيرة وتعتبر نية الموكل في الزكاة دون الوكيل كذا في معراج الدراية فلو دفع الزكاة إلى رجل وأمره أن يدفع إلى الفقراء فدفع، ولم ينو عند الدفع جاز."

(كتاب الزكاة، الباب الأول فى تفسير الزكاة، ج:1، ص:171، ط: دار الفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"ولو خلط زكاة موكليه ضمن وكان متبرعا (قوله ضمن وكان متبرعا) لأنه ملكه بالخلط وصار مؤديا مال نفسه. قال في التتارخانية: إلا إذا وجد الإذن أو أجاز المالكان اهـ أي أجاز قبل الدفع إلى الفقير، ... أو وجدت دلالة الإذن بالخلط كما جرت العادة بالإذن."

(كتاب الزكاة، ج:2، ص:269، ط: سعيد)

وفيه أيضاً:

"ولو تصدق بدراهم نفسه أجزأ إن كان على نية الرجوع وكانت دراهم الموكل قائمة،

(قوله ولو تصدق إلخ) أي الوكيل بدفع الزكاة إذا أمسك دراهم الموكل ودفع من ماله ليرجع ببدلها في دراهم الموكل صح. بخلاف ما إذا أنفقها أولا على نفسه مثلا ثم دفع من ماله فهو متبرع."

(كتاب الزكاة، ج:2، ص:269/ 270، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144606102574

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں