ایک دینی ادارہ کے نام پر مختلف علاقوں میں متعدد جائیدادیں(زرعی زمینیں، مکانات، دکانیں وغیرہ) وقف ہیں،لیکن ان موقوفہ جائیدادوں میں سے کچھ جائیدادیں ایسی ہیں کہ ان سے ادارہ کو بالکل ہی فائدہ نہیں ہورہا یا فائدہ تو پہنچ رہا ہے لیکن بالکل معمولی (غیر معتد بہٖ) منافع ہورہا ہے جس کی تفصیل درج ذیل ہے:
1۔ بعض زرعی جائیدادیں سیلاب اور آب پاشی وغیرہ کا نظام صحیح نہ ہونے کی وجہ سے قابل کاشت نہیں رہیں۔
2۔ بعض زمینوں پر کاشت کاری کی صورت میں کوئی معتد بہٖ پیداوار نہیں ہوتی، بالکل معمولی پیداوار ہوتی ہے اوربعض اوقات ادارہ کو کاشتکاری پر کیے گئے اخراجات کا خسارہ برداشت کرنا پڑتا ہے ۔
3۔ بعض موقوفہ مکانات / دکانوں کا کرایہ برائے نام ہے، بلکہ ان کی حفاظت اور بقا کے لئے ادارہ کو خرچ کرنا پڑتا ہے۔
4۔ بعض جائیدادوں کا قبضہ بھی ادارہ کے پاس نہیں ہے، بلکہ کسی اور نے ان پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے، جن کا کیس عدالت میں طویل عرصہ سے زیر سماعت ہے،عدالتی کارراوئی کے اخراجات ادارہ کو برداشت کرنے پڑتے ہیں،بعض مقبوضہ جائیدادوں کا قبضہ واپس لینے کی کوشش کے دوران جانی نقصان کا اندیشہ ہے، ان تمام امور کو مدنظر رکھتے ہوئے شریعتِ مطہر ہ کی روشنی میں راہ نمائی فرمائیں کہ:
1) کیا صورتِ مسئولہ میں اس طرح کی موقوفہ جائیدادوں (زرعی اراضی ،دکانیں اور مکانات )کو فروخت کرنا شرعاً جائز ہے یا نہیں؟
2) اگر بیع جائز ہو تو ان کے ثمن کو ادارہ کی کن مدات میں خرچ کیا جا سکتا ہے؟
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ دینی ادارہ کے نام پر وقف شدہ جن جائیدادوں سے ادارہ کو بالکل فائدہ نہیں ہورہا یا کچھ فائدہ ہورہا ہے لیکن (فائدہ سے زیادہ ادارہ کو خسارہ کا سامنا کرنا پڑتا ہواور) ان کوبیچ کراس سے حاصل شدہ رقم کے عوض دوسری جائیدادیں لینے میں ادارہ کا فائدہ زیادہ ہو، تو ایسی صورت میں متولیان کو ادارہ کی مذکورہ نقصان دہ یا کم فائدہ دینے والی جائیدادوں کو مناسب قیمت پر بیچنے کی اجازت ہوگی، البتہ بیچنے کے بعد حاصل شدہ رقم کے عوض لی گئی دوسری جائیدادوں کا استعمال واقفین کے منشاءکے مطابق استعمال کرنا ضروری ہوگا، تاہم اگر واقفین نے وقف کرتے وقت ادارہ مذکورہ میں کسی خاص مد کی تعیین نہ کی ہو تو متولیان اسے ادارہ کی مختلف مدات و مصالح میں استعمال کرسکتے ہیں۔
المحیط البرہانی میں ہے:
"سئل شمس الإسلام الحلواني عن أوقاف المسجد إذا تعطلت وتعذر استغلالها هل للمتولي أن يبيعها ويشتري مكانها أخرى؟ قال: نعم،.......وهكذا حكى فتوى شمس الأئمة السرخي رحمه الله في فصل العمارة إذا ضعفت الأراضي الموقوفة عن الاستغلال والقيم يجد بثمنها أرضا أخرى هي أكثر ريعا أن له أن يبيع هذه الأرض ويشتري بثمنها ما هو أكثر ريعا."
(كتاب الوقف، الباب السادس والعشرون في المتفرقات، ج:6، ص:233، ط:دار الكتب العلمية)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ولو قال: وهبت داري للمسجد أو أعطيتها له، صح ويكون تمليكا فيشترط التسليم، كما لو قال: وقفت هذه المائة للمسجد يصح بطريق التمليك إذا سلمه للقيم كذا في الفتاوى العتابية."
(كتاب الوقف، الباب الحادي عشرفي المسجدومايتعلق به، ج:2، ص:460، ط:المطبعة الكبري الأميرية)
فتاوی شامی میں ہے:
"وشرط في البحر خروجه على الانتفاع بالكلية وكون البدل عقارا....(قوله: وشرط في البحر إلخ) عبارته وقد اختلف كلام قاضي خان في موضع جوزه للقاضي بلا شرط الواقف، حيث رأى المصلحة فيه وفي موضع منع منه: لو صارت الأرض بحال لا ينتفع بها والمعتمد أنه بلا شرط يجوز للقاضي بشرط أن يخرج عن الانتفاع بالكلية، وأن لا يكون هناك ريع للوقف يعمر به وأن لا يكون البيع بغبن فاحش، وشرط الإسعاف أن يكون المستبدل قاضي الجنة المفسر بذي العلم والعمل لئلا يحصل التطرق إلى إبطال أوقاف المسلمين كما هو الغالب في زماننا اهـ ويجب أن يزاد آخر في زماننا: وهو أن يستبدل بعقار لا بدراهم ودنانير فإنا قد شاهدنا النظار يأكلونها، وقل أن يشتري بها بدلا ولم نر أحدا من القضاة فتش على ذلك مع كثرة الاستبدال في زماننا. اهـ (ولا شك أن هذا هو الاحتياط، ولا سيما إذا كان المستبدل من قضاة هذا الزمن وناظر الوقف غير مؤتمن) ...ولا يخفى أن هذه الشروط فيما لم يشترط الواقف استبداله لنفسه أو غيره،فلو شرطه لا يلزم خروجه عن الانتفاع ولا مباشرة القاضي له ولا عدم ريع يعمر به كما لا يخفى."
(كتاب الوقف، مطلب في استبدال الوقف وشروطه، ج:4، ص:386، ط:سعيد)
فتاوی محمودیہ میں ہے:
”سوال [ ۷۰۱۸] : مسجد کے مصارف کے لئے موقوفہ زمین فروخت کرنا اور اس کی قیمت سے مسجد ہی کے مصارف کے لئے دوسری جگہ مکان یا دوکان وغیرہ بنوانا جس میں مذکورہ فروخت شدہ زمین کی آمدنی سے زیادہ آمدنی متوقع ہو جائز ہے کہ نہیں...؟
الجواب حامداً ومصلياً :
جوز مین مسجد کے مصارف کے لئے وقف ہو چکی ہے اس کی بیع نا جائز ہے، اس کی اجازت نہیں کہ اس کو فروخت کر کے اس سے زیادہ آمدنی کی زمین خریدی جائے...البتہ اگر مسجد کی زمین پر کسی کا غاصبانہ قبضہ ہو جائے اور اس کی واگذاری کرانا ممکن نہ ہو تو مجبوراً معاوضہ لے کر دوسری زمین خرید کر وقف کر دی جائے یا اگر وقف شدہ زمین قابل انتفاع نہ رہے، تب بھی اجازت ہے کہ اس کو فروخت کر کے اس کی قیمت سے دوسری زمین لے کر اس کو وقف کر دی جائے ۔”
(کتاب الوقف، باب احکام المساجد، ج:14، ص:460، ط:دار الافتاءجامعہ فاروقیہ، کراچی)
وفيهاأيضاً:
”سوال [۱۰۷۴۰] : زید نے ایک اراضی ایک مسجد کے مصارف کے لئے وقف کی ، ان مصارف کی تفصیل اس طرح کی کہ اس کی آمدنی امام کی تنخواہ ، فرش ، جھاڑو، مرمت مسجد وغیرہ پر صرف کی جائے، کچھ عرصہ بعد اس پر دیسی آم کا باغ لگا دیا گیا، چونکہ وقت کافی گزر گیا ہے اور درخت پرانے ہو گئے ہیں، جس پر فصل بہت کم آتی ہے، جس کی آمدنی سے مسجد کے مصارف پورے نہیں ہوتے ، تو کیا ان درختوں کو کاٹ کر اس پر کاشت کے لئے مسجد کی آمدنی میں اضافہ کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟
الجواب حامداً ومصلياً :
واقف نے اراضی وقف کی تھی، متولی خیر خواہ نے اس پر آم لگا دیئے ، تاکہ آمدنی زیادہ ہو جائے، اب پھل کم آنے کی وجہ سے آمدنی کم ہو گئی اور درختوں کو کٹوا کر کھیتی کے لئے اراضی کو خالی کرانے میں زیادہ آمدنی کا ظن غالب ہے تو اصحاب الرائے سے مشورہ لے کر اس کی اجازت ہے۔”
(کتاب الوقف، باب مایتعلق بنفس الوقف، ج:23، ص:44، ط:دار الافتاءجامعہ فاروقیہ، کراچی)
فتاوی دار العلوم دیوبندمیں ہے:
”سوال: (۴۸۴) ایک صحرائی زمین مسجد کے نام وقف ہے، اور یہ اراضی افتادہ اور نا قابل زراعت ہے، جب سے وقف ہوئی ہے کسی قسم کی پیداوار نہیں ہوئی ، اس سے ملحقہ اراضی کا مالک موقوفہ اراضی کے تبادلے میں دو چند مزروعہ اراضی دینے پر تیار ہے؟ اس صورت میں متبادلہ اراضی کی پیداوار سے مسجد کو نفع حاصل ہو سکتا ہے، یہ تبادلہ شرعا جائز ہے یا نہیں؟
الجواب: به ضرورت مذکورہ یہ تبادلہ جائز ہے۔”
(کتاب الوقف، اوقافِ مسجد سے متعلق مسائل، ج:13، ص:388، ط:دار الاشاعت، کراچی)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144604101387
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن