بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 ذو القعدة 1446ھ 29 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

کسی کا برانڈ نام استعمال کرنے کا حکم


سوال

 ہمارے پاکستان میں تین برانڈز ہیں،اس کے اندر بیگ وغیرہ بنتے ہیں۔اب بعض لوگ ہماری اجازت کے بغیر ہمارے برانڈ کے نام کو استعمال کرتے ہیں، آیا شرعا ان کے لیے یہ جائز ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ کسی برانڈ کی مصنوعات کی مثل بنا کر اس برانڈ کا نام استعمال کرنا تاکہ خریدادر دھوکہ میں پڑکر اصل سمجھ  کر مال خرید یں، دھوکہ دہی ہونے کی وجہ سے یہ عمل  جائز نہیں۔ ہاں اگر خریدار کو بتایا جاتا ہو کہ یہ اصل نہیں ہے بلکہ نقل ہے اور پھر خریدار سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے مال خریدلے،  تو پھر مذکورہ مال بیچنے  والی کی آمدنی حرام نہیں ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"لا يحل ‌كتمان ‌العيب في مبيع أو ثمن؛ لأن الغش حرام إلا في مسألتين.»

(قوله؛ لأن الغش حرام) ذكر في البحر أو الباب بعد ذلك عن البزازية عن الفتاوى: إذا باع سلعة معيبة، عليه البيان وإن لم يبين قال بعض مشايخنا يفسق وترد شهادته، قال الصدر لا نأخذ به. اهـ. قال في النهر: أي لا نأخذ بكونه يفسق بمجرد هذا؛ لأنه صغيرة. اهـ

قلت: وفيه نظر؛ لأن الغش من أكل أموال الناس بالباطل فكيف يكون صغيرة، بل الظاهر في تعليل كلام الصدر أن فعل ذلك مرة بلا إعلان لا يصير به مردود الشهادة، وإن كان كبيرة كما في شرب المسكر ."

(کتاب البیوع،  باب خیار العیب، ج نمبر ، ۵ ص نمبر ۴۷، ایچ ایم سعید)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"وعنه «أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - مر على ‌صبرة ‌طعام فأدخل يده فيها فنالت أصابعه بللا فقال: " ما هذا يا صاحب الطعام؟ قال: أصابته السماء يا رسول الله. قال: أفلا جعلته فوق الطعام حتى يراه الناس، من غش فليس مني» ". رواه مسلم."

(کتاب البیوع، باب  المنہی عنہا من البیوع، ج نمبر ۵، ص نمبر ۱۹۳۵، دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144609101447

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں