بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی کا یونیورسٹی کا کام پیسہ لے کر کرنا


سوال

اگر میں کسی کا یونیورسٹی کا کام پیسوں کے بدلے کرتا ہوں تو کیا یہ جا ئز  ہے، کیوں کہ دھوکا تو وہ دے رہا ہے، میں تو پیسوں کے بدلے کام کر رہا ہوں؟ اور وہ  ہوسکتا ہے کام کی وجہ سے نہیں کر پاتا۔

جواب

یونیورسٹی میں جو کام طلبہ کو دیا جاتا ہے وہ اُن کی اپنی ذاتی صلاحیتوں اور استعداد کو جانچنے کے لیے دیا جاتا ہے، اگر وہ اپنا کام کسی اور سے پیسے دے کر کرواتے ہیں تو اس میں دھوکا بازی پائی جاتی ہے اور جو آدمی پیسہ لے کر اُن کو کام کر کے دیتا ہے، وہ بھی اس گناہ کے  کام میں اُن کی معاونت کرتا ہے اور گناہ کے کاموں میں معاونت کرنا جائز نہیں،  لہذا پیسہ لے کر کسی  کی یونیورسٹی کا کام کر کے دینا جائز نہیں ہے۔ 

تفسیر ابن کثیر میں ہے:

"وقوله : {وتعاونوا على البر والتقوى ولاتعاونوا على الإثم والعدوان} يأمر تعالى عباده المؤمنين بالمعاونة على فعل الخيرات، وهو البر، وترك المنكرات وهو التقوى، وينهاهم عن التناصر على الباطل، و التعاون على المآثم والمحارم." [المائدة، رقم الأية: ٢]

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209200268

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں