ا یسے جرا ب اور کپڑے وغیرہ جس پر شکل بطورِ علامت بنی ہوتی ہے، لیکن واضح نہیں ہوتی اس کا حکم کیا ہے؟
جاندار کی تصویر اگر بالکل نمایاں نہ ہو، یعنی بغیر مشقت بطورِ جاندار اس کی پہچان نہ ہوسکتی ہو، تو ایسی تصویر اگر جراب یا کپڑے وغیرہ پر ہو تو اس جراب اور کپڑے کی خرید و فروخت جائز ہو گی، اور ایسے کپڑے میں نماز بھی بلا کراہت درست ہوجائے گی، البتہ ایسی غیر نمایاں چھوٹی تصویریں بنانا جائز نہیں، لہٰذا ایسی چھوٹی غیر نمایاں تصاویر بھی مٹادینا چاہیے۔
امداد الاحکام میں ہے:
سوال:ململ وغیرہ کے تھان، بنیان کے ڈبّے، نیز دوسری اشیاء کے اوپر امتیاز کے لیے عموماً تصویریں ہوتی ہیں، جیسے:پری چھاپ، گھوڑا چھاپ وغیرہ وغیرہ، جس سے شناخت میں سہولت ہوتی ہے، اگر باوجود اکراہ ان پر پڑا رہنے دیا جائے تو جائز ہے؟ اور اگر نکال ڈالے تو شناخت کیسے کرے؟
الجواب:کیا یہ ممکن نہیں کہ ان کا چہرہ سیاہی یا چاقو سے مٹادیا جائے، کیا یہ شناخت کے لیے کافی نہیں ہوگا۔
(غنا و مزامیر اور لہو و لعب و تصاویر کے احکام، ج:4، ص:254، ط:مکتبہ دار العلوم، کراچی)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ويكره أن يصلي وبين يديه أو فوق رأسه أو على يمينه أو على يساره أو في ثوبه تصاوير وفي البساط روايتان والصحيح أنه لا يكره على البساط إذا لم يسجد على التصاوير وهذا إذا كانت الصورة كبيرة تبدو للناظر من غير تكلف. كذا في فتاوى قاضي خان ولو كانت صغيرة بحيث لا تبدو للناظر إلا بتأمل."
(كتاب الصلاة، الباب السابع فيما يفسد الصلاة و ما يكره فيها، ج:1، ص:107، ط:دار الفكر)
فتاوی شامی میں ہے:
"قال في البحر: وفي الخلاصة وتكره التصاوير على الثوب صلى فيه أو لا انتهى، وهذه الكراهة تحريمية. وظاهر كلام النووي في شرح مسلم الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ فينبغي أن يكون حراما لا مكروها إن ثبت الإجماع أو قطعية الدليل بتواتره اهـ كلام البحر ملخصا....قلت: لكن مراد الخلاصة اللبس المصرح به في المتون ... وكلام النووي في فعل التصوير، ولا يلزم من حرمته حرمة الصلاة فيه بدليل أن التصوير يحرم؛ ولو كانت الصورة صغيرة كالتي على الدرهم أو كانت في اليد أو مستترة أو مهانة مع أن الصلاة بذلك لا تحرم، بل ولا تكره لأن علة حرمة التصوير المضاهاة لخلق الله تعالى، وهي موجودة في كل ما ذكر. وعلة كراهة الصلاة بها التشبه وهي مفقودة فيما ذكر كما يأتي."
(كتاب الصلاة، باب ما يفسد الصلاة و يكره فيها، ج:1، ص:647، سعيد)
وفيه أيضاً:
"أقول: الذي يظهر من كلامهم أن العلة إما التعظيم أو التشبه كما قدمناه ... هذا كله في اقتناء الصورة، وأما فعل التصوير فهو غير جائز مطلقا لأنه مضاهاة لخلق الله تعالى كما مر."
(كتاب الصلاة، باب ما يفسد الصلاة و يكره فيها، ج:1، ص:650/649، سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144608100614
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن