بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی کی غصب شدہ رقم ثواب کی نیت سے خرچ کی جا سکتی ہے؟


سوال

اگر کسی نے دھوکا دہی سے لوگوں سے روپے  لیے اور ان کے سامنے یہ ظاہر کیا کہ وہ کمپنی ڈوب گئی جس پر ہر کسی کا شک بھی دور گیا اور یقین بھی آگیا، بعد ازیں انہیں رقم پر اس شخص نے کاروبار کیا اور منافع بھی کمایا، لیکن اب جب کہ اس کو اپنے گناہ اور غلطی کا احساس ہو چکا ہے اور وہ اس کا ازالہ کرنا چاہتا ہے،  لیکن بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اگر یہ بات مالکان کے سامنے ظاہر ہوتی ہے یقیناً کوئی سنگین نتائج سامنے آئیں گے، اب کوئی ایسی صورت ہے کہ یہ بندہ وہ مقبوض شدہ رقم ان کے پیچھے ثواب کی نیت سے کسی مسجد کی تعمیر یا کسی اور نیک کام میں اس مالک کی طرف سے دے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص نے دھوکے  سے جو  رقم لوگوں سے لی ہے یا جو رقم اس کے پاس موجود  تھی اور اس نے لوگوں سے یہ کہہ دیا کہ وہ رقم ڈوب گئی ہے، اس رقم کے مالکان وہی لوگ ہیں جن سے اُس نے یہ رقم لی تھی، اور شرعاً و اخلاقاً  لینے والے کی ذمہ داری ہے کہ وہ یہ رقم اُن کو لوٹا دے، اور جب تک کسی بھی طرح اصل مالکان  تک رقم کا پہنچانا ممکن ہو  اس وقت تک  یہ رقم کسی دوسرے مصرف میں استعمال کرنا یا کسی کو ثواب کی نیت سے دینا جائز نہیں  ہے۔

اگر ایسے شخص کو یہ ڈر ہو کہ ایسا کرنے سے سنگین نتائج سامنے آ سکتے ہیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ دنیا کی مصیبتیں عارضی اور یہاں کے نتائج معمولی ہیں، آخرت کا عذاب بہت سخت اور دائمی ہے؛  لہذا  مذکورہ شخص پر واجب ہے کہ ہر آدمی کی رقم اُس تک پہنچا دے،  ہاں اس کے  لیے کوئی مناسب تدبیر اختیار  کرسکتاہے؛ تا کہ اس کے مفاسد سے بچا جا سکے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 385):

"وقال في النهاية: قال بعض مشايخنا: كسب المغنية كالمغصوب لم يحل أخذه، وعلى هذا قالوا: لو مات الرجل وكسبه من بيع الباذق أو الظلم أو أخذ الرشوة يتورع الورثة، ولايأخذون منه شيئًا وهو أولى بهم ويردونها على أربابها إن عرفوهم، وإلا تصدقوا بها لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه اهـ."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144201200048

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں