بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

کسی مقصد کے لیے افسر کی چاپلوسی کرنے کا حکم


سوال

کسی ملازم کا آفس وغیرہ میں کسی بڑے عہدےدار کے سامنے اپنے کسی کام کی غرض سے چاپلوسی کرنا کیسا ہے؟

جواب

چاپلوسی کرنا مؤمن کے اخلاق کا حصہ نہیں ہے، یہ ان عادات میں سے جن کے بارے میں احادیثِ مبارکہ میں ممانعت آئی ہے، ایسی برائی ہے جو اپنے اندر دیگر کئی برائیوں کا احاطہ کرتی ہے، چاپلوسی کرنے والا درحقیقت جھوٹ بولنے والا ہوتا ہے، اس کا دل اس کی زبان کو جھٹلا رہا ہوتا ہے جو کہ نفاق ہے، جس کی چاپلوسی کی جاتی ہے اس کے عجب اور تکبر میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے، جوکہ انسان کو ہلاک کرنے والی برائیاں ہیں، لہٰذا دنیا کے  منافع اور فوائد حاصل کرنے کی خاطر کسی انسان کے سامنے خود کو ذلیل کرنا اور اس کی خوشامد کرنا حرام ہے، اس سے بچنا چاہیے۔

کنز العمال میں ہے:

"ليس من خلق المؤمن التملق ولا الحسد إلا في طلب العلم."

(حرف العين، كتاب العلم، ج:١٠، ص:١٨٠، رقم:٢٨٩٣٧م ط:مؤسسة الرسالة)

ترجمہ:”چاپلوسی اور حسد مؤمن کے اخلاق کا حصہ نہیں، البتہ حصولِ علم کے لیے یہ دونوں چیزیں نہایت کار آمد ہیں۔“

فیض القدیر شرح الجامع الصغیر میں ہے:

"(‌إياكم ‌والتمادح) وفي رواية والمدح (فإنه الذبح) لما فيه من الآفة في دين المادح والممدوح وسماه ذبحا لأنه يميت القلب فيخرج من دينه وفيه ذبح للممدوح فإنه يغره بأحواله ويغريه بالعجب والكبر ويرى نفسه أهلا للمدحة سيما إذا كان من أبناء الدنيا أصحاب النفوس وعبيد الهوى وفي رواية فإنه من الذبح وذلك لأن المذبوح هو الذي يفتر عن العمل والمدح يوجب الفتور أو لأن المدح يورث العجب والكبر وهو مهلك كالذبح."

(حرف الهمزة، ج:٣، ص:١٢٩، ط:المكتبة التجارية الكبرى)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(قوله التواضع لغير الله حرام) أي إذلال النفس لنيل الدنيا، وإلا فخفض الجناح لمن دونه مأمور به سيد الأنام عليه الصلاة والسلام يدل عليه ما رواه البيهقي عن ابن مسعود رضي الله عنه " من خضع لغني ووضع له نفسه إعظاما له وطمعا فيما قبله ذهب ثلثا مروءته وشطر دينه."

(كتاب الحظر والإباحة، ج:٦، ص:٣٨٤، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144606101640

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں