بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 ذو القعدة 1446ھ 29 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

کسی نےکام کےلیےپیسےدیے،وہ خرچ نہ ہوئےتواس کودینےوالےکوپہنچاناضروری ہے


سوال

ایک آدمی کسی تنظیم کےساتھ منسلک ہوا،پھراس تنظیم کےعلاقائی سربراہ نےاسےایک سرکاری ادارےمیں NOC حاصل کرنےکےلیےکچھ رقم دےکربھیجاکہ آفیسرکویہ پیسے دےکرNOCلےلینا،(یہ رقم اس آفیسرکی چائےپانی کےلیےدی تھی ،تاکہ کام جلدی کرلے)اس آدمی کی سرکاری آفیسرسےکچھ ان بن ہوئی جس کی وجہ سےوہ پیسےنہ دےسکا، البتہ NOC حاصل کرلی،اب یہ آدمی اس رقم کونہ آفیسرکودےسکااورنہ اس تنظیم کےسربراہ کودیناچاہتاہے،(یعنی حیاکی وجہ سے)اگریہ پیسےکسی اورعنوان سےتنظیم کےحوالے کردے،تواس کے ذمےسےفارغ ہوجائےگایانہیں ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل اور مذکورہ شخص  کےلیے NOC حاصل کرنے کے لیے چائے پانی کے عنوان سے رقم دینا رشوت تھا، اس لیے اس طرح کے عمل سے اجتناب ضروری ہے۔

سائل کے پاس مذکورہ رقم امانت ہے،اب اگریہ رقم وہ مالک کوکسی بھی طورپرحوالہ کردے،توشرعااس کاذمہ بری ہوگا اور اگر تنظیم کی ہو تو پھر خاص مالک کو وہ رقم پہنچانا ضروری نہیں ہے ،بلکہ تنظیم کو دے دینا کافی ہے ۔

صحیح بخاری میں ہے:

"ولا يحل مال المسلمين، لقول النبي صلى الله عليه وسلم: (‌آية ‌المنافق إذا اؤتمن خان). وقال الله تعالى: {إن الله يأمركم أن تؤدوا الأمانات إلى أهلها} النساء: (58)."

(باب قوله تعالى من بعدوصية يوصي بهااودين، رقم الحديث 5719، ج:3، ص:1009)

المحیط البرہانی میں ہے:

   "بأن الثمن في ‌يد ‌الوكيل لو كان قائما كان متعينا."

(‌‌كتاب المستورة من القاضي بالعربية، محضر فيه دعوى ثمن أشياء أرسل بها المدعي إلى المدعى عليه ليبيعها، ج:9، ص:523، ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

 "لأن مال ‌الأمانة ‌يتعين بالتعيين."

(كتاب الوكالة، ‌‌باب الوكالة بالخصومة والقبض،ج:5، ص:535، ط:دار الفكر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ومنه أنه أمين فيما في يده كالمودع فيضمن بما يضمن به المودع ويبرأ به."

(كتاب الوكالة، الباب الأول، ج:3، ص:567، ط:دار الفكر)

الفروق للقرافی میں ہے:

"وأما جوابر المال ‌فالأصل ‌أن ‌يؤتى ‌بعين ‌المال مع الإمكان فإن أتى به كامل الذات والصفات برئ من عهدته أو ناقص الأوصاف جبر نقصها بالقيمة لأن الأوصاف ليست مثلية إلا أن تكون الأوصاف تخل بالمقصود من تلك العين خللا كثيرا فإنه يضمن الجملة عندنا."

(الفرق التاسع والثلاثون بين قاعدة الزواجر وبين قاعدة الجوابر)، ج:1، ص:212، ط:عالم الكتب)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144511102535

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں