میرے والد صاحب کا انتقال 2013 میں ہوا، ان کے والدین کا انتقال پہلےہی ہو چکا ہے، ان کے ورثاء میں بیوہ، ایک بیٹا اور چار بیٹیاں، والد صاحب کی ایک دکان اور ایک گھر تھا، والد صاحب کی دکان انکی زندگی میں ہی بیٹے کے نام کر دی گئی تھی اور گھر امی کے نام کر دیا تھا، گھر کا کرایہ والد کے بیمار ہونے کی وجہ سے تایا وصول کرتے تھے اور ابو کے ہاتھ میں دیتے تھے، اسی کرائےسے امی گھر چلاتی تھیں، جائیداد کا کرایہ اور کاغذات امی کے ہاتھ میں تھے، 2019 میں امی کے انتقال ہوا، ان کے والدین کا انتقال بھی ان کی حیات میں ہی ہو چکا تھا، والدہ کے انتقال کے بعد کرایہ بھائی کے ہاتھ میں آتا تھا، 2021 کے بعد بھائی نے کرایہ میں سے کچھ حصہ ہمیں بھی دینا شروع کیا۔
اسی طرح والد نے جو بھائی کے نام دکان کی تھی اس کی شرعی طور پر کیا حیثیت ہے؟
بھائی دوکان فروخت کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ آپ کو آدھا حصہ دوں گا، جو حصہ آپ کو ملے گا اس سے بھی آپ کو جگہ خرید کر دوں گا اور اس کے کاغذات اپنے پاس رکھوں گا، اور مکان کا کہہ رہے ہیں کہ بہنیں مکان کا حصہ معاف کر دیں ، اور دوکان میں سے کچھ حصہ لے لیں، اور وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ اس دکان میں سے بھی بروکری اور امی ابو کے صدقہ جاریہ کے لئے پیسے کاٹیں گے، کیا اس طرح گھر کا حصہ معاف کروانا ٹھیک ہے؟ نیز بروکری کے پیسے بھائی بہنوں کے حصے سے کیسے کٹیں گے، کیا بھائی کے بہنوں کے ڈبل کٹیں گے؟ نیز بھائی کہہ رہےہیں کہ دکان کہ پیسوں سے بہنیں حج کریں اور والدین کے ایصال ثواب کے لئے بھی صدقہ جاریہ کریں، اجتماعی طور پر بہن بھائی سب مل کر، کیا یہ طریقہ شرعی طور پر درست ہے؟
واضح رہے کوئی بھی چیز محض کسی کے نام کرنے سے اس فرد کی ملکیت میں نہیں آتی ،جب تک کہ وہ چیز مکمل قبضہ و تصرف کے ساتھ نہ دے دی جائے ۔ لہذا صورتِ مسئولہ میں جب سائلہ کے والد مرحوم نے مذکورہ دکان محض بیٹے کے نام کی تھی اور اس دکان کا قبضہ والد کے پاس تھا اور اس کا کرایہ بھی والد صاحب کے پاس آتا تھا اور ان کے انتقال کے بعد ان کی بیوہ کے پاس آتا تھا ، نیزاسی طرح والد مرحوم نے جب مکان خرید کر صرف اپنی اہلیہ کے نام کی تھا اور اس مکان کا قبضہ ان کے شوہر ہی کے پاس تھا اور اپنی وفات تک وہ اسی میں رہائش پذیر رہے ہیں ، توشرعاً یہ دکان اور مکان بدستور والد مرحوم کی ملکیت میں تھے، جو اب ان کے انتقال کے بعد ان کا ترکہ شمار ہوگا اور ان کے تمام شرعی ورثاء :چاروں بیٹیوں اور ایک بیٹے میں شرعی حصص کے حساب سے تقسیم ہوگا۔
نیز دکان کو فروخت کرنے کی صورت میں بھائی کا یہ کہنا کہ "میں آپ کا آدھا حصہ اپنے پاس رکھوں گا اور اس دکان کے حصہ سے امی ابو کے صدقہ جاریہ کے لئے یہ رقم کاٹوں گا"، تو اس کا شرعی حکم یہ ہے کہ ایسی صورت میں اگر تمام ورثاء عاقل، بالغ ہیں اور سب خوشی سے اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ مرحوم کے ترکہ کو ان کے ایصالِ ثواب کی خاطر خرچ کردیا جائے تو ایسا کرسکتے ہیں، البتہ بھائی بہنوں کو اس بات پر مجبور نہیں کر سکتا ، اور نہ ہی ان کی اجازت کے بغیر ان کے حصے کی رقم اپنے پاس روک سکتا ہے اور نہ ہی اس سے والدین کے صدقہ جاریہ کے لئے رقم کاٹ سکتا ہے، بلکہ ہر ایک وارث اپنے حصے میں خود مختار ہے ، چاہے وہ ایصال ثواب کے لئے رقم دے یا نہ دے۔
نیز بھائی کا بہنوں سے زبردستی مکان کا حصہ معاف کروانے سے معاف نہیں ہوگا، البتہ تقسیم کی صورت میں بہنیں اپنے حصہ پر قبضہ کرنے کے بعد بھائی کو گفٹ کرنا چاہیں تو کر سکتی ہیں،یا اپنے حصے کے بدلے کچھ رقم لے کر صلح کرنا چاہیں تو صلح کر سکتی ہیں، اور دکان کو فروخت کرنے کی صورت میں بروکری کی رقم تمام ورثاء سے ان کے شرعی حصص کے تناسب سے کٹے گی، یعنی بھائی کے حصے سے رقم بہنوں کے دو گنا کٹے گی۔
نیز صورت مسئولہ میں مرحوم والدین کی میراث کی تقسیم کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحومین کے حقوق متقدمہ یعنی کفن دفن کا خرچہ نکالنے کے بعد اگر مرحومین پر کوئی قرضہ ہے تو اس کو ادا کرنے کے بعد اگر مرحومین نے کوئی جائز وصیت کی ہے تو اس کو کل مال کے ایک تہائی سے نافذ کرنے کے بعد ما بقیہ کل ترکہ کو 6 حصوں میں تقسیم کر کے دو حصے بھائی اور ایک حصہ ہر ایک بہن کو ملے گا۔
صورت تقسیم یہ ہے:
میت(مرحوم والدین) :6
بیٹا | بیٹی | بیٹی | بیٹی | بیٹی |
2 | 1 | 1 | 1 | 1 |
یعنی سو فیصد میں سے 33.33 فیصد بیٹے کو اور 16.66 فیصد ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔
مشکاۃالمصابیح میں ہے:
"قال رسول الله صلی الله عليه وسلم:ألا لاتظلموا ألا لايحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه."
(باب الغصب والعاریة، ج:1، ص:261، ط: رحمانیه)
وفي شرح المجلة لسليم رستم باز:
"(المادة:97) لايجوز لأحد أن يأخذ مال أحد بلا سبب شرعي."
(المقالة الثانیة، ج:1، ص:51، ط:رشیدیة)
درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:
"إذا احتاج الملك المشترك للتعمير والترميم فيعمره أصحابه بالاشتراك بنسبة حصصهم سواء كان الملك مشتركا بين أكثر من مالك واحد أو مشتركا بين مالك ووقف أو كان قابلا للقسمة كالدار الكبيرة أو غير قابل للقسمة كالحمام والبئر فإذا كان الوقف شريكا في الملك فيدفع متولي الوقف حصة الوقف في المصرف بنسبة حصته والملك هنا أعم من ملك الرقبة وملك المنفعة."
(الکتاب العاشر الشرکات، الباب الخامس، المادۃ: 1308، 3/ 310، ط: دارالجیل)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"لايثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية."
(کتاب الھبة، الباب الثانی فیما یجوز من الھبة وما لایجوز، ج:4، ص:378، ط:رشیدیة)
فتاوی شامی میں ہے:
"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلاً لملك الواهب لا مشغولاً به) والأصل أن الموهوب إن مشغولاً بملك الواهب منع تمامها، وإن شاغلاً لا، فلو وهب جرابًا فيه طعام الواهب أو دارًا فيها متاعه، أو دابةً عليها سرجه وسلمها كذلك لاتصح، وبعكسه تصح في الطعام والمتاع والسرج فقط؛ لأنّ كلاًّ منها شاغل الملك لواهب لا مشغول به؛ لأن شغله بغير ملك واهبه لايمنع تمامها كرهن وصدقة؛ لأن القبض شرط تمامها وتمامه في العمادية."
(کتاب الھبة،ج:5،ص:690، ط :سعید)
فتاوى تاتارخانیة میں ہے:
"وفي المنتقى عن أبي يوسف: لايجوز للرجل أن يهب لامرأته وأن تهب لزوجها أو لأجنبي دارًا وهما فيها ساكنان، وكذلك الهبة للولد الكبير؛ لأن يد الواهب ثابتة علي الدار."
(فیما یجوز من الھبة وما لا یجوز، نوع منه، ج:14، ص:431، ط:زکریا،دیوبند،دهلی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144608100110
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن