میرے والد صاحب مرحوم کے انتقال کو 28 سال ہو گئے ہیں ، ان کا ایک مکان تھا جو میں نے2012 میں 25 لاکھ کا فروخت کر دیا تھا،جس سے میں نے اپنے لیے 2 پلاٹ لے لیے تھےاور 5 لاکھ روپے میرے پاس بچ گئے تھے جو بعد میں خرچ کر دیے، ان میں سے ایک پلاٹ پر میں نے اپنے پیسوں سے مکان بنا لیا ہے اوردوسرا پلاٹ میں نے 2 مہینے پہلے فروخت کر دیا ہے،میری 5 بہنیں ہیں اور میں ان کا اکیلا بھائی ہوں، میں چاہتا ہوں کہ اپنی پانچوں بہنوں کو اپنے والد مرحوم کے مکان (جائیداد) کا حصہ دے دوں۔ رہنمائی فرمائیں !
صورتِ مسئولہ میں جو دو پلاٹ والد کے مکان کو بیچ کر خریدے گئے ان دونوں پلاٹوں میں بہنوں کا حصہ ہے ان کی موجودہ قیمت لگائی جائے اور اس کے سات حصے کیے جائیں ، دو حصے آپ کے اور ایک ایک حصہ پانچوں بہنوں کا بشرطیکہ آپ کی والدہ حیات نہ ہوں، اور جو پانچ لاکھ آپ کے پاس بچ گئے تھے ان کو بھی اسی طرح تقسیم کیا جائے گا، اور جس پلاٹ پر آپ نے مکان تعمیر کر دیا تھااس میں بھی مصالحت کی جائے، تعمیر ات کے پیسے نکال کر باقی مذکورہ ترتیب پر سات حصے بناکر تقسیم کیے جائیں گے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(عمر دار زوجته بماله بإذنها فالعمارة لها والنفقة دين عليها) لصحة أمرها (ولو) عمر (لنفسه بلا إذنها العمارة له) ويكون غاصبا للعرصة فيؤمر بالتفريغ بطلبها ذلك (ولها بلا إذنها فالعمارة لها وهو متطوع) في البناء فلا رجوع له ولو اختلفا في الإذن وعدمه، ولا بينة فالقول لمنكره بيمينه، وفي أن العمارة لها أو له فالقول له لأنه هو المتملك كما أفاده شيخنا.....(قوله عمر دار زوجته إلخ) على هذا التفصيل عمارة كرمها وسائر أملاكها جامع الفصولين، وفيه عن العدة كل من بنى في دار غيره بأمره فالبناء لآمره ولو لنفسه بلا أمره فهو له، وله رفعه إلا أن يضر بالبناء، فيمنع ولو بنى لرب الأرض، بلا أمره ينبغي أن يكون متبرعا كما مر."
(كتاب الوصايا، مسائل شتى، ج: 6، ص: 747، ط: سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144507101167
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن