کسی بندے کو طلباء میں مفت تقسیم کرنے کے لیے کافی ساری کتابیں دی گئیں ہوں لیکن وہ بندہ جس کو تقسیم کرنے کے لیے دی گئی ہیں وہ انتہائی معمولی رقم مثلا ۱۰۰ روپے طالب علم سے وصول کرکے تقسیم کر رہا ہے یہ کہہ کر کہ میرا کچھ کرایہ لگا ہے اور کتابیں لانے اور تقسیم کرنے میں مشقت اٹھائی لہذا یہ سو روپے اس کا عوض ہے کیا شریعت کی نظر میں یہ سو روپے وصول کرنا جائز ہے۔
وضاحت: جس نے کتابیں دی تھیں اس نے اس شخص کو کہا تھا کہ یہ کتابیں فلاں مدرسہ میں تقسیم کرنی ہیں اور لیجانے کا کرایہ خود بھرنا ۔
صورت مسئولہ میں جس شخص کو طلبہ میں مفت کتابیں تقسیم کرنے کے لیے دی گئی ہیں اس شخص کے لیے طلبہ سے ۱۰۰ روپے کرائے اور تقسیم کرنے کی مشقت کا عوض لینا شرعا جائز نہیں ہے۔نیز چونکہ کتابوں کے مالک نے کتابیں حوالے کرتے ہوئے کہا تھا کہ کرایہ خود بھرنا، اس وقت اس نے اس بات کو قبول کرتے ہوئے ذمہ داری لی ہے لہذا اب اسے یہ خرچ خود برداشت کرنا چاہیے اور اگر وہ یہ خرچہ برداشت نہیں کرسکتا تو پھر کتابیں دینے والےسے رجوع کرکے وہ خرچہ وصول کرے ، مستحقین سے لینے کا کوئی جواز نہیں ۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ويجوز التوكيل بالبياعات والأشربة والإجارات والنكاح والطلاق والعتاق والخلع والصلح والإعارة والاستعارة والهبة والصدقة والإيداع وقبض الحقوق والخصومات وتقاضي الديون والرهن والارتهان كذا في الذخيرة."
(کتاب الوکالۃ، ج نمبر ، ص نمبر ۵۶۴، دار الفکر)
مبسوط سرخسی میں ہے:
"ولو وكله ببيع عبد له، أو عرض له حمل ومؤنة فاستأجر، وخرج بها من الكوفة إلى مكة، فباعها هناك؛ أجزت البيع؛ لأن الآمر بالبيع مطلق، ففي أي موضع باعه فهو ممتثل، ولا ألزم الآمر من الآخر شيئا؛ لأنه لم يأمر بالاستئجار،فهو متبرع فيما التزم من ذلك."
(کتاب الصرف، باب الوکالۃ فی الصرف، ج نمبر ۱۴، ص نمبر ۶۴،مطبعۃ السعادۃ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144606101985
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن