بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1446ھ 21 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

کتابوں کے دکاندار کا کتابوں پردکان کی تھم لگانا


سوال

بک سیلردکان دار اپنی کتابیں بیچنے کے بعد اس کتاب میں اپنی دکان کا تھم لگاتے ہیں، کیا یہ مشتری کی ملکیت میں تصرف ہے یا نہیں؟اور اگر خریدنے سے پہلے  یہ عمل وہ دکاندار کرلیں تو کیا یہ صحیح ہے یا نہیں ؟

جواب

دکاندار کا کتابوں پر اپنی دکان کا تھم لگانے  کی مختلف صورتیں ہیں ،چناں چہ:

  1. اگر کتاب پر پہلے سے تھم لگی ہو اور کوئی شخص اس تھم لگی کتاب کوخریدنے دکاندار کے پاس آتا ہے  یا کتاب پر پہلے سے تھم تو نہیں لگی ہوئی، لیکن دکاندار کا طریقہ /اصول یہی ہو کہ جو بھی کتاب فروخت کرتا ہے، اس پر اپنی دکان کا تھم لازمی لگاتا ہے تو  اس میں کوئی حرج نہیں ہے،کتابیں دکاندار کی ملکیت ہیں، اس کی مرضی اپنی کتابیں جس طرح چاہے فروخت کرے،یہ مشتری کی ملکیت میں تصرف نہیں ہے،مشتری  کو اختیار ہے کہ وہ  تھم لگی کتاب خریدنا چاہے تو خرید لےاور  چاہے تو نہ خریدے ، دوسری جگہ سے   بغیر تھم والی کتاب  خریدلے ۔
  2. اگر مشتری دکاندار کے پاس کتاب خریدنے آیا  دکاندار نے کتاب دکھائی ،اس وقت کتاب میں تھم نہیں لگا تھا اور  دکاندار  نے کتابوں پر تھم لگانے کا اصول بھی مقرر نہیں کیا ہوا، خریدار نے وہ کتاب پسند کرکے دکاندار سے خرید لی، اب اگر دکاندار اس کتاب پر اپنا تھم لگانا چاہتا ہے تووہ خریدار کی اجازت سے لگائے ،بغیر اجازت کے نہ لگائے ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"قال العلامة البيري: والذي استقر عليه رأي المتأخرين أن الإنسان ‌يتصرف ‌في ‌ملكه وإن أضر بغيره ما لم يكن ضررا بينا."

 (‌‌كتاب القسمة، 272/6، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144602102544

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں