بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

کتابیہ سے نکاح جائز اور مکروہ دونوں کس طرح ہے؟


سوال

 میں نے آپ کی ویب سائٹ پر ایک فتویٰ پڑھا تھا جس میں تھا کہ کتابیہ سے نکاح کا حکم یہ ہے کہ جائز ہے، لیکن مکروہ ہے، البتہ پھر اس میں تفصیل ہے کہ اگر کتابیہ ذمیہ ہے، یعنی ہمارے ہاں رہتی ہے اور اہل ذمہ میں سے ہے تو اس سے نکاح کرنا مکروہ تنزیہی ہے، اور اگر کتابیہ حربیہ ہے، یعنی دارالکفر میں رہتی ہے تو اس سے نکاح کرنا مکروہ تحریمی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ مکروہ تحریمی تو ناجائز کو کہتے ہیں تو اب کتابیہ حربیہ سے نکاح کرنا جائز بھی ہے اور ناجائز بھی؟ یہ اجتماع ضدین ہے؟ اس کا کیا حل ہوگا؟

جواب

واضح رہے کہ مسلمان مرد کا نکاح کسی کافر عورت سے جائز نہیں،البتہ اگر عورت کتابیہ یعنی یہودیہ یا نصرانیہ وغیرہ ہو تو اس سے  مسلمان مرد کا نکاح دو شرطوں کے ساتھ ہو سکتا ہے:

(1)  وہ  صرف نام کی عیسائی/یہودی اور درحقیقت لامذہب دہریہ نہ ہو،بلکہ اپنے مذہبی اصول کوکم ازکم مانتی ہو، اگرچہ عمل میں خلاف بھی کرتی ہو، یعنی اپنے نبی پر ایمان رکھتی ہو اور اس پر نازل ہونے والی کتاب پر بھی ایمان رکھتی ہو۔

(2)  وہ اصل ہی یہودیہ نصرانیہ ہو، اسلام سے مرتدہوکر یہودیت یا نصرانیت اختیار نہ کی ہو۔

جب یہ دو شرطیں کسی کتابیہ عورت میں پائی جائیں  تو اس سے نکاح صحیح و منعقد ہوجاتا ہے، لیکن بلاضرورتِ شدیدہ اس سے نکاح کرنا مکروہ اور بہت مفاسد پر مشتمل ہے،   آج کل کے پرفتن ماحول میں جب کہ برائی کا اثر قبول کرنے میں اضافہ روز افزوں ہے، اور عام طور پر حال یہ ہے کہ مرد کا اثر بیوی پر قائم ہونے کے بجائے شاطر لڑکیاں مردوں کو اپنا تابع دار بنالیتی ہیں، نیز اہلِ کتاب ماؤں کے فاسد اَثرات اولاد پر بھی بہت زیادہ پڑتے ہیں، اور    دار الکفر میں رہتے ہوئے  ان مفاسد  میں مبتلا ہونے کا  امکان زیادہ ہے کہ وہاں کے ماحول سے متاثر ہوکر    فتنہ میں  پڑجائے  اور کفار کے درمیان رہتے ہوئے  بچوں میں ان کے اخلاق وعادات آجائیں وغیرہ،  اور  مسلمانوں کے درمیان رہتے ہوئے نسبتا اس کا امکان کم ہے، اس لیے فقہاء کرام نے  ذکر کیا ہے کہ اگرلڑکی  اہلِ کتاب حربیہ ہو تو اس کے ساتھ نکاح مکروہِ تحریمی ہے،اور اگر اہلِ کتاب  ذمیہ ہو تو اس کے ساتھ نکاح مکروہِ  تنزیہی ہے، حاصل یہ ہے کہ فی نفسہ جواز  کے ساتھ بسا اوقات خارجی عوامل کی وجہ سے اس میں کراہت آجاتی ہے، اور پھر مختلف امور کی بنا پر کراہت میں کمی اور زیادتی ہوتی ہے، اس لیے اس میں  منافات اور تضاد نہیں ہے۔

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

"عبد الله بن إدريس، عن الصلت بن بهرام، عن شقيق، قال: تزوج حذيفة يهودية ‌فكتب ‌إليه ‌عمر ‌أن ‌خل ‌سبيلها، فكتب إليه: إن كانت حراما خليت سبيلها فكتب إليه: «إني لا أزعم أنها حرام، ولكني أخاف أن تعاطوا المومسات منهن»."

( كتاب النكاح، من كان يكره النكاح في أهل الكتاب،3/ 473، ط: مکتبة الرشد)

فتاوی شامی میں ہے:

"و) حرم نكاح (الوثنية) بالإجماع (وصح نكاح كتابية) ، وإن كره تنزيها (مؤمنة بنبي) مرسل (مقرة بكتاب) منزل.

"(قوله: كتابية) أطلقه فشمل الحربية والذمية والحرة والأمة ح عن البحر (قوله: وإن كره تنزيها) أي سواء كانت ذمية أو حربية، فإن صاحب البحر استظهر أن الكراهة في الكتابية الحربية تنزيهية فالذمية أولى. اهـ.ح قلت: علل ذلك في البحر بأن التحريمية لا بد لها من نهي أو ما في معناه؛ لأنها في رتبة الواجب. اهـ. وفيه أن إطلاقهم الكراهة في الحربية يفيد أنها تحريمية، والدليل عند المجتهد على أن التعليل يفيد ذلك، ففي الفتح ويجوز تزوج الكتابيات والأولى أن لا يفعل، ولا يأكل ذبيحتهم إلا للضرورة، وتكره الكتابية الحربية إجماعا؛ لافتتاح باب الفتنة من إمكان التعلق المستدعي للمقام معها في دار الحرب، وتعريض الولد على التخلق بأخلاق أهل الكفر، وعلى الرق بأن تسبى وهي حبلى فيولد رقيقا، وإن كان مسلما. اهـ.فقوله: والأولى أن لا يفعل يفيد كراهة التنزيه في غير الحربية، وما بعده يفيد كراهة التحريم في الحربية تأمل. (قوله: مؤمنة بنبي) تفسير للكتابية لا تقييد ط (قوله: مقرة بكتاب) في النهر عن الزيلعي: واعلم أن من اعتقد دينا سماويا وله كتاب منزل كصحف إبراهيم وشيث وزبور داود فهو من أهل الكتاب فتجوز مناكحتهم وأكل ذبائحهم (قوله: على المذهب) أي خلافا لما في المستصفى من تقييد الحل بأن لا يعتقدوا ذلك ويوافقه ما في مبسوط شيخ الإسلام يجب أن لا يأكلوا ذبائح أهل الكتاب إذا اعتقدوا أن المسيح إله، وأن عزيرا إله، ولا يتزوجوا نساءهم قيل وعليه الفتوى، ولكن بالنظر إلى الدليل ينبغي أنه يجوز الأكل والتزوج. اهـ.قال في البحر: ‌وحاصله ‌أن ‌المذهب ‌الإطلاق لما ذكره شمس الأئمة في المبسوط من أن ذبيحة النصراني حلال مطلقا سواء قال بثالث ثلاثة أو لا لإطلاق الكتاب هنا والدليل ورجحه في فتح القدير بأن القائل بذلك طائفتان من اليهود والنصارى انقرضوا لا كلهم مع أن مطلق لفظ الشرك إذا ذكر في لسان الشرع لا ينصرف إلى أهل الكتاب، وإن صح لغة في طائفة أو طوائف لما عهد من إرادته به من عبد مع الله تعالى غيره ممن لا يدعي اتباع نبي وكتاب إلى آخر ما ذكره. اهـ.   "

(کتاب النکاح، فصل في المحرمات،،3/ 45، ط:سعید)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"سوال: کیا جو عیسائی اور یہودی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت موجود تھے،اور ایمان نہیں لائے ،اور جو اب تک ایمان نہیں لائے ،کافر ہیں یا نہیں؟اور وہ   اہل کتاب کہلانے کے مستحق ہیں یا نہیں ؟اگر ہیں تو کیا ان کے ساتھ بیاہ شادی کھانا پینا اب بھی جائز ہے یانہیں؟

جواب:"(وصح ‌نكاح ‌كتابية) ، وإن كره تنزيها (مؤمنة بنبي) مرسل (مقرة بكتاب) منزل، وإن اعتقدوا المسيح إلها، وكذا حل ذبيحتهم على المذهب بحر."(در المختار)

قلت: علل ذلك في البحر بأن التحريمية لا بد لها من نهي أو ما في معناه؛ لأنها في رتبة الواجب. اهـ. وفيه أن ‌إطلاقهم ‌الكراهة في الحربية يفيد أنها تحريمية، والدليل عند المجتهد على أن التعليل يفيد ذلك، ففي الفتح ويجوز تزوج الكتابيات والأولى أن لا يفعل، ولا يأكل ذبيحتهم إلا للضرورة، وتكره الكتابية الحربية إجماعا؛ لافتتاح باب الفتنة من إمكان التعلق المستدعي للمقام معها في دار الحرب، وتعريض الولد على التخلق بأخلاق أهل الكفر، وعلى الرق بأن تسبى وهي حبلى فيولد رقيقا، وإن كان مسلما. اهـ.فقوله: والأولى أن لا يفعل يفيد كراهة التنزيه في غير الحربية، وما بعده يفيد كراهة التحريم في الحربية تأمل....(قوله: على المذهب) أي خلافا لما في المستصفى من تقييد الحل بأن لا يعتقدوا ذلك ويوافقه ما في مبسوط شيخ الإسلام يجب أن لا يأكلوا ذبائح أهل الكتاب إذا اعتقدوا أن المسيح إله، وأن عزيرا إله، ولا يتزوجوا نساءهم قيل وعليه الفتوى الخ"

عبارت مذکورہ سے معلوم ہوا کہ جو فرقے کتابی ہیں،کسی نبی رسول پر ایمان رکھتے ہیں،کسی آسمانی کتاب کے مقر اور معتقد ہیں،ایسے فرقوں کی عورتوں سے نکاح کرنا صحیح ہے،مگر ایسا کرنا مکروہ ہے،پھر بعض علماء کے نزدیک یہ مکروہ تنزیہی ہے،اور بعض فرماتے ہیں کی کتابیہ ذمیہ سے تو مکروہ تنزیہی ہے،اور حربیہ سے مکروہ تحریمی ہے،ذمیہ وہ ہے جو اسلامی حکومت میں مسلمان بادشاہ کی رعیت بن کر رہے ،حربیہ وہ ہے ،وہ ہے جو ایسی نہ ہو۔

بعض علماء فرماتے ہیں،کہ کتابیہ سے اس وقت نکاح جائز ہےکہ وہ حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام ،اور حضرت عزیر علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق یہ اعتقاد نہ رکھتی ہو کہ وہ معبود ہیں،یعنی اس کا عقیدہ مشرکانہ نہ ہو،ور نہ جائز  نہیں،اور ایک جماعت نے اس پر فتوی دیا ہے،یہی حکم ذبیحہ کا بھی ہے۔

آج کل کے عیسائی عامۃً مذہب کے منکر ہیں،کسی کتاب اور دین  کے قائل نہیں،نہ ان کےپاس کوئی آسمانی کتاب ہے،لہذا اس کا حکم اہل کتاب کا نہیں،اور جو کتاب انجیل مقدس کو مانتے ہیں،تو اس میں ہمیشہ تغیر و ترمیم کرکےپرانے احکام کو خارج اور نئے احکام کو  جو زمانے کی رفتا رکے مطابق ہوں،داخل کرتے رہتے ہیں،جس سے نئی طبع ہونے والی انجیل پرانی انجیل کے لیے ناسخ بنتی ہے،پس اگر چہ کوئی دین کوئی آسمانی دین نہیں،نہ ان کی کتاب آسمانی کتاب رہی، تاہم ان کا حکم اہل کتاب کا حکم ہوگا،یہی حکم یہودی کا ہے۔فقط واللہ اعلم "

(متفرقات الفرق،2/ 312،ط:دار الافتاءجامعہ فاروقیہ کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144510100282

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں