بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا بنی آدم کی تخلیق بذات خود اللہ تعالي نے اپنے ہاتھوں سے فرمائی؟


سوال

انسان کا چہرہ اللہ تعالی بناتا ہے اور روح اللہ تعالی ڈالتا ہے اور پورا جسم فرشتہ بناتا ہے ، کیا یہ بات صحیح ہے؟

جواب

مجموعہ احادیث اور روایات سے یہ معلوم ہوتا ہےکہ تخلیق انسانی کا عمل اللہ رب العزت کے حکم سے فرشتہ سرانجام دیتا ہے، اور اس کے تمام مراحل کا ذمہ دار ہوتا ہے۔اسی سلسلہ میں مختلف احادیث وروایات وارد ہوئی ہیں جو اس بات کی رہبری کرتی ہیں کہ انسان کا چہرہ، اور اس کے جسم کے مختلف اعضاء  وغیرہ کو بنانے والا فرشتہ ہی ہوتا ہے۔البتہ اس چیز پر قدرت اس کو اللہ تعالي کی طرف سے سپرد ہوتی ہے، بذات خود وہ اس امر پر قادر نہیں ہوتا۔باقی جہاں بھی اس کی اضافت اللہ تعالي کی طرف کی گئی ہے تو اعزاز وتکریم کے لیے  کی گئی ہے۔

صحیح مسلم میں ہے:

"عن عبد الله بن مسعود قال: الشقي من شقي في بطن أمه والسعيد من وعظ بغيره، فأتى رجلا من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم يقال له: حذيفة بن أسيد الغفاري، فحدثه بذلك من قول ابن مسعود فقال: وكيف يشقى رجل بغير عمل؟ فقال له الرجل: أتعجب من ذلك؟ فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " إذا مر بالنطفة ثنتان وأربعون ليلة، بعث الله إليها ملكا، فصورها وخلق سمعها وبصرها وجلدها ولحمها وعظامها، ثم قال: يا رب أذكر أم أنثى؟ فيقضي ربك ما شاء، ويكتب الملك، ثم يقول: يا رب أجله، فيقول ربك ما شاء، ويكتب الملك، ثم يقول: يا رب رزقه، فيقضي ربك ما شاء، ويكتب الملك، ثم يخرج الملك بالصحيفة في يده، فلا يزيد على ما أمر ولا ينقص ."

"حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے تھے، بدبخت وہ ہے جو اپنی ماں کے پیٹ سے بدبخت ہے اور نیک بخت وہ ہے جو دوسروں سے نصیحت پائے۔ حضرت عامر بن واثلہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی کے پاس آئے جن کو حضرت حذیفہ بن اسید غفاری کہتے تھے اور ان سے یہ حدیث بیان کی اور فرمايا: بغیر عمل کے آدمی کیسے بدبخت ہو گا؟ حضرت حذیفہ بولے: تو اس سے تعجب کرتا ہے میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، فرماتے تھے: ”جب نطفے پر بیالیس راتیں گزر جاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ بھیجتا ہے اس کے پاس وہ اس کی صورت بناتا ہے اور اس کے کان، آنکھ، کھال، گوشت اور ہڈی بناتا ہے، پھر عرض کرتا ہے: اے پروردگار! یہ مرد ہو یا عورت، پھر جو پروردگار چاہتا ہے وہ حکم دیتا ہے اور فرشتہ لکھ لیتا ہے، پھر عرض کرتا ہے: اے پروردگار! اس کی عمر کیا ہے؟ پھر جو پروردگار چاہتا ہے وہ حکم کر دیتا ہے اور فرشتہ لکھ لیتا ہے، پھر عرض کرتا ہے: اے پروردگار! اس کی روزی کیا ہے؟ پھر جو پروردگار چاہتا ہے وہ حکم کر دیتا ہے اور فرشتہ لکھ لیتا ہے۔ پھر وہ فرشتہ اپنے ہاتھ میں یہ کتاب باہر لے کر نکلتا ہے اور اس سے کچھ نہ بڑھتا ہے نہ گھٹتا ہے۔"

(صحيح مسلم، كتاب القدر، باب كيفية خلق الأدمي في بطن أمه، ج: 4، ص: 2037، رقم: 2645، ط: دار إحياء التراث العربي بيروت)

مذکورہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تخلیق انسانی کا عمل فرشتہ کے ذریعہ انجام پاتا ہے۔ اس میں ایک احتمال یہ بھی ہے کہ کلمہ "کن" کو انسانی تخلیق کا ذریعہ قرار دیا جائے۔چنانچہ اسی سلسلہ میں امام دارمی رحمہ اللہ نے  حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نقل کیا ہے، وہ فرماتے ہیں :

"اللہ تعالی نے چار چیزوں کو اپنے ہاتھ سے پیدا فرمایا: عرش، قلم، جنت عدن، اور آدم، اس کے بعد ساری مخلوقات کو "كُنْ" کہا تو وہ وجود میں آ گئیں"

"قال عبد الله بن عمر: "خلق الله أربعة أشياء بيده:العرش، والقلم، وعدن، وآدم ثم قال لسائر الخلق: كن فكان."

( نقض الإمام أبي سعيد عثمان بن سعيد على المريسي الجهمي العنيد فيما افترى على الله عز وجل من التوحيد، ج: 1، ص: 261، ط: دار الرشد للنشر والتوزيع)

مذكوره عبارت سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ چار چیزوں کی تخلیق اللہ رب العزت نے خود اپنے ہاتھوں سے کی،باقی تمام چیزیں کلمہ "کن" کے ذریعہ معرض وجود میں آئیں۔

اسی طرح جن احادیث میں روح پھونکنے کا ذکر آیا ہے اس میں بھی یہ احتمال ہے کہ نفخِ روح ، فرشتہ کی طرف سے ہو، اور یہ بھی ممکن ہے کہ نفخِ روح، اللہ رب العزت کی طرف سے  امرِ "كن " کی صورت میں ہو۔چنانچہ  ایک حدیث مبارک میں  ہے:

"عن زيد بن وهب، قال عبد الله: حدثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو الصادق المصدوق، قال: " إن أحدكم يجمع خلقه في بطن أمه أربعين يوما، ثم يكون علقة مثل ذلك، ثم يكون مضغة مثل ذلك، ثم يبعث الله ملكا فيؤمر بأربع كلمات، ويقال له: اكتب عمله، ورزقه، وأجله، وشقي أو سعيد، ثم ينفخ فيه الروح، فإن الرجل منكم ليعمل حتى ما يكون بينه وبين الجنة إلا ذراع، فيسبق عليه كتابه، فيعمل بعمل أهل النار، ويعمل حتى ما يكون بينه وبين النار إلا ذراع، فيسبق عليه الكتاب، فيعمل بعمل أهل الجنة "

"حضور اكرم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:تم میں سے ہر ایک کی پیدائش کی (ابتداء میں یہ صورت ہوتی ہے) کہ چالیس روز تک ماں کے پیٹ میں نطفہ جمع کیا جاتا ہے،یعنی معمولی تغیر کے ساتھ نطفہ رہتا ہے، پھر یہ نطفہ چالیس روز کے اندر منجمد خون کی شکل اختیار کرتا ہے، پھر چالیس روز میں گوشت کا لوتھڑا بن جاتا ہے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ اس کے پاس ایک فرشتہ چار باتوں کا حکم دے کر بھیجتا ہے، تو وہ فرشتہ اس کے عمل و کام کو، اور اس کی موت کو، اور اس کی روزی کو، اور اس کے نیک بخت اور بدبخت ہونے کو لکھتا ہے، پھر اس میں روح پھونکی جاتی ہے۔ اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے کہ تم میں سے کوئی شخص ساری زندگی اہل جنت کا کام کرتا ہے یہاں تک کہ اس میں اور جنت میں صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے، (مگر اس پر) تقدیر کا لکھا ہوا غالب آ جاتا ہے اور دوزخیوں کا کام کر کے دوزخ میں داخل ہو جاتا ہے، اور (اسی طرح سے) تم میں سے ایک شخص ساری زندگی دوزخیوں کے کام کرتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور دوزخ کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو اس پر نوشتہ تقدیر غالب آ جاتی ہے اور آخر عمر میں جنتیوں کا کام کر کے جنت میں داخل ہو جاتا ہے۔"

(صحيح البخاري، كتاب أحاديث الأنبياء، باب خلق آدم صلوات الله عليه وذريته، ج: 4، ص: 133، ط: دار طوق النجاة)

اس حديث كي تشريح كرتے ہوئے صاحب "فتح المنعم" لکھتے ہیں که نفخ روح كي اضافت يا تو الله رب العزت كے کلام "کن فیکون" کی طرف ہے، یا پھر اس فرشتہ کی طرف ہے جس کو اللہ تعالي نے نفخ روح پر قدرت دی ہے۔

"ثم يكون في ذلك مضغة مثل ذلك ثم يرسل الملك فينفخ فيه الروح" مراد به الملك الثاني، والنافخ هو الله بقوله كن فيكون أو الملك في الصورة بأمر الله "

(فتح المنعم شرح صحيح مسلم، ج: 10، ص: 162، ط: دار الشروق)

خلاصه يه هے کہ اللہ رب العزت نے چار چیزوں کو اپنے ہاتھوں سے وجود بخشا، باقي تمام انسانوں کی تخلیق اور نفخ روح کا عمل فرشتوں کے ذریعہ کروایا، یا پھراز خود امرِ "كن" كے واسطے ان كو انجام ديا۔

فقظ واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507100687

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں