1۔ ایک شخص کا انتقال ہوا، ورثاء میں والدین، بیوہ، ایک بیٹا اور دو بیٹیاں اور بھائی ہیں، اولاد نابالغ ہیں، ان کو میراث میں سے ملنے والے حصے کی حفاظت والدہ، دادا یا چچاؤں میں کس کی ذمہ داری ہے؟
2۔مرحوم کے نابالغ بیٹے اور بیٹیوں کی پرورش کا حق کس کو اور کب تک حاصل ہے؟
3۔کیا مرحوم کی بیوہ کو مرحوم کے بھائی سے نکاح کرنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے؟
1۔صورتِ مسئولہ میں مرحوم کے بچوں کے مال کی حفاظت اس کے والد یعنی بچوں کے دادا کے ذمہ ہے،لہذا بچوں کا مال دادا کےپاس بطورِ امانت رکھا جائے،دادا اس رقم کو بچوں کی ضروریات میں دستور کے موافق خرچ کرے گا، اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ اس رقم کو اپنے ذاتی اخراجات یا کسی دوسرے مصرف میں خرچ کرے، اگر اس نے ایسا کیا تو اس کے ذمہ ضمان لازم ہوگا، اور وہ خیانت کا مرتکب شمار ہوگا۔
2۔ بچہ سات سال تک اور بچیاں نو سال کی عمر مکمل ہونے تک والدہ کی زیر پرورش رہیں گی، بشرط یہ کہ والدہ بچوں کے غیر محرم رشتہ دارسے شادی نہ کرے،اگر وہ بچوں کے غیر محرم رشتہ دار سے نکاح کرے تو اس کا حق پرورش ختم ہوجائےگا،پھر بچوں کی نانی ،نانی نہ ہونے کی صورت میں دادی پرورش کی حق دار ہوگی ، بچہ کی عمر سات سال اور بچیوں کی عمرنو سال مکمل ہونے پر داد اکو یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ بچوں کی تربیت کرے۔
3۔مرحوم کی بیوہ کو مرحوم کے بھائی سے نکاح پر مجبور کرنا جائز نہیں ، شوہر کی عدت گزارنے کے بعد بیوہ جس جگہ چاہے نکاح کرسکتی ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(والولاية في مال الصغير) (إلى الأب ثم وصيه ثم وصي وصيه) إذ الوصي يملك الإيصاء (ثم إلى) الجد (أبي الأب ثم إلى وصيه)ثم وصي وصيه (ثم إلى القاضي ثم إلى من نصبه القاضي) ثم وصي وصيه (وليس لوصي الأم) ووصي الأخ (ولاية التصرف في تركة الأم مع حضرة الأب أو وصيه أو وصي وصيه أو الجد) أبي الأب (وإن لم يكن واحد مما ذكرنا فله) أي لوصي الأم (الحفظ) وله (بيع المنقول لا العقار) ولا يشتري إلا الطعام والكسوة؛ لأنهما من جملة حفظ الصغير خانية."
(كتاب الوكالة، باب الوكالة بالبيع والشراء، ج: 5، ص: 528۔529، ط: سعید)
وفيه أيضاً:
"(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع وبه يفتى لأنه الغالب. ولو اختلفا في سنه، فإن أكل وشرب ولبس واستنجى وحده دفع إليه ولو جبرا وإلا لا (والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية. ولو اختلفا في حيضها فالقول للأم بحر بحثا. وأقول: ينبغي أن يحكم سنها ويعمل بالغالب. وعند مالك، حتى يحتلم الغلام، وتتزوج الصغيرة ويدخل بها الزوج عيني (وغيرهما أحق بها حتى تشتهى) وقدر بتسع وبه يفتى."
(كتاب الطلاق، باب الحضانة، ج: 3، ص: 566، ط: سعید)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"أحق الناس بحضانة الصغير حال قيام النكاح أو بعد الفرقة الأمإلا أن تكون مرتدة أو فاجرة غير مأمونة كذا في الكافي. سواء لحقت المرتدة بدار الحرب أم لا، فإن تابت فهي أحق به كذا في البحر الرائق. وكذا لو كانت سارقة أو مغنية أو نائحة فلا حق لها هكذا في النهر الفائق. ولا تجبر عليها في الصحيح لاحتمال عجزها إلا أن يكون له ذو رحم محرم غيرها فحينئذ تجبر على حضانته كي لا يضيع بخلاف الأب حيث يجبر على أخذه إذا امتنع بعد الاستغناء عن الأم كذا في العيني شرح الكنز، وإن لم يكن له أم تستحق الحضانة بأن كانت غير أهل للحضانةأو متزوجة بغير محرم أو ماتت فأم الأم أولى من كل واحدة، وإن علت، فإن لم يكن للأم أم فأم الأب أولى ممن سواها، وإن علت كذا في فتح القدير...وإذا وجب الانتزاع من النساء أو لم يكن للصبي امرأة من أهله يدفع إلى العصبة فيقدم الأب، ثم أبو الأب."
(كتاب الطلاق، الباب السادس عشر، ج: 1، ص: 541۔542، ط: دارالفکر)
وفيه أيضاً:
"لا يجوز نكاح أحد على بالغة صحيحة العقل من أب أو سلطان بغير إذنها بكرا كانت أو ثيبا فإن فعل ذلك فالنكاح موقوف على إجازتها فإن أجازته؛ جاز، وإن ردته بطل، كذا في السراج الوهاج."
(كتاب النكاح، الباب الرابع، ج: 1، ص: 287، ط: دار الفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144606102118
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن