ذہن میں بہت عرصے سے ایک مسئلہ الجھن پیدا کر رہاہے اور پوچھنے پر بھی جھجک محسوس کر رہا ہوں! جنت میں جو حور و غلمان ہیں، کیا یہ جنتی کی خدمت کےلیے مقرر ہوں گے یا اس سے جنتی کوئی اور جنسی خواہش بھی پوری کر سکتا ہے؟ اور جنتی عورتوں کےلیےاس بارے میں کیا احکامات ہیں؟ اس بارے میں راہ نمائی فرمائیں۔
جنت نعمتوں وراحتوں کےمجموعےکانام ہے ،اللہ تعالی نےاس میں ہرقسم کی جسمانی وروحانی لذتوں کاسامان پیدافرمایاہے،وہاں کی نعمتوں میں من جملہ حور و غلمان بھی ہیں ،غلمان جنتیوں کی خدمت پر مامور ہوں گے، اہلِ جنت کو شراب و مشروبات پلانے اور کھانے کی اشیاء پیش کرنے کی خدمت میں مشغول ہوں گے، ان سے جنسی تعلق یا غلط خیال کا گمان بھی نہیں ہوگا۔ جب كہ حوریں اللہ تعالی نےجنتیوں کی جنسی خواہش کی تکمیل کےلیےبھی پیدافرمائی ہیں،ترمذی شریف اورصحیح مسلم کی روایت کےمطابق اللہ تعالی ٰ ایک ادنیٰ مرتبہ جنتی کواسی ہزارخادم اوربہتربیویاں عطافرمائیں گے ،جن میں دوبیویاں بنی آدم میں سےہوں گی ،جوجنت کی حوروں سےاعلی ہوں گی ،باقی ستربیویاں جنت کی حوریں ہوں گی اوریہ اتنی خوب صورت اورصاف شفاف ہوں گی کہ سترجوڑوں پھرگوشت اورپھرہڈیوں کےاندران کی پنڈلیوں کاگودانظرآئےگا۔نیز دنیاوی بیوی جنت میں اپنےشوہرکی حوروں کی سرداراورشوہرسےٹوٹ کرمحبت کرنےوالی ہوگی۔
سورة الدھرمیں اللہ تعالی فرماتےہیں:
"وَيَطُوفُ عَلَيْهِمْ ولدَانٌ مُخَلَّدُونَ : إِذَا رَأَيْتَهُمْ حَسِبْتَهُمْ لُؤْلُؤًا مَنْثُورًا."
ترجمہ:" اور ان کے پاس ( یہ چیزیں لے کر ) ایسے لڑ کے آمد و رفت کریں گے جو ہمیشہ لڑکے ہی رہیں گے اور اس قدر حسین ہیں کہ ہمارے مخاطب اگر تو ان کو چلتے پھرتے دیکھے تو سمجھے موتی ہیں جو بکھر گئے ہیں ۔"
تفسیرِمدارک میں ہے:
"{وَيَطُوفُ عَلَيْهِمْ ولدان} غلمان ينشئهم الله لخدمة المؤمنين أو ولدوان الكفرة يجعلهم الله تعالى خدمة لأهل الجنة {مُّخَلَّدُونَ} لا يموتون{إِذَا رَأَيْتَهُمْ حسبتهم} لحسنهم وصفاء ألوانهم وانبثائهم في مجالسهم {لُؤْلُؤاً مَّنثُوراً} وتخصيص المنثور لأنه أزين في النظر من المنظوم."
(سورۃ الإنسان آیت:580/3،19 دار الکلم الطیب)
مشكاة المصابيح میں ہے:
"وعن أنس عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «يعطى المؤمن في الجنة قوة كذا وكذا من الجماع» . قيل: يا رسول الله أو يطيق ذلك؟ قال: «يعطى قوة مائة» . رواه الترمذي."
" حضرت انس اللہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مؤمن کو جنت میں اتنی اتنی عورتوں سے مباشرت کی قوت دی جائے گی ۔ عرض کیا گیا یا رسول اللہ ! کیا ایک مرد اتنی عورتوں سے عمل زوجیت ادا کرنے کی طاقت رکھے گا۔ ارشاد فرمایا: اسے سو مردوں کی طاقت دی جائے گی۔" (ترمذی)
(كتاب احوال القيامة،باب صفۃ الجنۃ واہلہا، الفصل الثانی،3 / 1567، المكتب الاسلامی)
سنن ترمذی کی روایت ہے:
"عن أبي سعيد الخدري، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أدنى أهل الجنة الذي له ثمانون ألف خادم واثنتان وسبعون زوجة، وتنصب له قبة من لؤلؤ وزبرجد وياقوت كما بين الجابية إلى صنعاء»."
(أبواب صفة الجنة،695/4،مصطفي البابي الحلبي)
شرح النووی علی مسلم میں ہے:
"قوله صلى الله عليه وسلم (إن أول زمرة تدخل الجنة هي على صورة القمر ليلة البدر والتى تليها على أضوء كوكب دري في السماء لكل امرئ منهم زوجتان ما في الجنة أعزب) الزمرة الجماعة والدري تقدم ضبطه وبيانه قريبا قوله صلى الله عليه وسلم (زوجتان)...فرواه بالألف قال القاضي وليس بشيء والعزب من لازوجة له والعزوب البعد وسمي عزبا لبعده عن النساء قال القاضي ظاهر هذا الحديث أن النساء أكثر أهل الجنة وفي الحديث الآخر أنهن أكثر أهل النار قال فيخرج من مجموع هذا أن النساء أكثر ولد آدم قال وهذا كله فى الآدميات وإلافقد جاء للواحد من أهل الجنة من الحور العدد الكثير."
(کتاب الجنة،171/17،دار إحياء التراث)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144511101319
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن