بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

کیا جنات اور شیاطین ایک ہیں؟/ کیا جنات کو اصل شکل میں دیکھنا ممکن ہے؟


سوال

میں ایک ماہر نفسیات ہوں. میرے آپ سے دو سوال ہیں:

1: کیا جنات اور شیطان ایک ہی ہیں،یا پھر الگ الگ دو مخلوق ہیں؟

2: بہت سارے مریض جب آتے ہیں، تو سب بولتے ہیں، ہم پر جادو ہو گیا،جن بھوت کا ہم پر سایہ ہے،اور محترم اگر آپ گھروں میں بیٹھی عورتوں کی باتیں بھی سنیں، تو زیادہ تر سب کو سائے گزرتے نظر آتے ہیں،تو محترم کیا اتنا آسانی سے جنات انسان کو نظر آسکتے ہیں؟ جنات کن لوگوں کو نظر آتے ہیں؟  کیا پاکستان کی ساری عوام کو جنات نظر آسکتے ہیں؟ویسے ہماری فیلڈ میں تو اس مرض کو شیزوفرینیا کا نام دیا جاتا ہے۔کیسے پتہ لگایا جائے جنات کا سایہ ہے ۔

جواب

1۔شیاطین جنات سے الگ کوئی مخلوق نہیں ہے ،شیاطین جنات ہی میں سے ہیں،بلکہ جنوں میں جو سرکش وکافر ہوتے ہیں،وہ شیطان کہلاتے ہیں۔

2۔ جنات کبھی کسی انسان کی صورت،کبھی سانپ،کبھی کتے وغیرہ کے شکل میں ظاہر ہوتے ہیں،اس وقت انہیں سب دیکھ سکتے ہیں،جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے،البتہ  جنات کا اپنی صورت میں دیکھنا ممکن نہیں،البتہ اگر اللہ تعالیٰ کسی انسان کی نظر  میں ایسی قوت پیدا فرمائے،جس سے جنات کو دیکھنا ممکن ہو،پھر دیکھا جاسکتا،جس طرح انبیاء علیہم السلام کو اللہ  تعالیٰ نے یہ قوت عطا فرمائی تھی، جنات کو اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی آزمائش کےلیے یہ قدرت دی رکھی ہےکہ وہ مختلف طریقوں سے انسانوں پر اثر انداز ہوتے ہیں،پریشان بھی کرتے ہیں،لہذا کسی پر جنات کا تسلط ہو،یہ بعید بات نہیں ہے، تا ہم بیشتر لوگ اس سلسلہ میں محض شکوک وشہبات اور وساوس میں مبتلا ہوتے ہیں،ایسے افراد کو صبح وشام کے اذکار(دعاؤں) کے اہتمام کی تلقین کرنی چاہیے۔

تفسیر نسفی میں ہے:

"{فسجدوا إلا إبليس} الاستثناء متصل لأنه كان من الملائكة كذا قاله على وابن عباس وابن مسعود رضى الله عنهم ولأن الأصل أن الاستثناء يكون من جنس المستثنى منه ولهذا قال ما منعك ألا تسجد إذ أمرتك وقوله كان من الجن معناه صار من الجن كقوله فكان من المغرقين وقيل الاستثناء منقطع لأنه لم يكن من الملائكة بل كان من الجن بالنص وهو قول الحسن وقتادة ولأنه خلق من نار والملائكة خلقوا من النور ولأنه أبى وعصى واستكبر والملائكة لا يعصون الله ما أمرهم ولا يستكبرون عن عبادته ولأنه قال أفتتخذونه وذريته أولياء من دونى ولا نسل للملائكة وعن الجاحظ أن الجن والملائكة جنس واحد فمن طهر منهم فهو ملك ومن خبث فهو شيطان ومن كان بين بين فهو جن."

(سورۃ البقرۃ، ج: 1، ص: 80، ط: دار الكلم الطيب)

تفسیر ابن کثیر میں ہے:

"وقوله (فسجدوا إلا إبليس كان من الجن) أي: خانه أصله؛ فإنه خلق من مارج من نار، وأصل خلق الملائكة من نور، كما ثبت في صحيح مسلم عن عائشة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، أنه قال: "خلقت الملائكة من نور، وخلق إبليس من مارج من نار، خلق آدم مما وصف لكم". فعند الحاجة نضح كل وعاء بما فيه، وخانه الطبع عند الحاجة، وذلك أنه كان قد توسم بأفعال الملائكة وتشبه بهم، وتعبد وتنسك، فلهذا دخل في خطابهم، وعصى بالمخالفة.ونبه تعالى هاهنا على أنه(من الجن) أي: إنه خلق من نار، كما قال:{أنا خير منه خلقتني من نار وخلقته من طين}[الأعراف: 12، وص: 76]."

(الکھف، ج: 5، ص: 167، ص: دار طيبة للنشر والتوزيع)

اکام المرجان فی الأحکام الجان میں ہے:

"وقال القاضي عبد الجبار الهمداني فصل في كون اجسامهم رقيقة ولضعف ابصارنا لا نراهم لا لعلة أخرى لو قوي الله تعالى أبصارنا أو كثف أجسامهم لرأيناهم. اعلم أن الذي يدل على رقة أجسامهم قوله تعالى {إنه يراكم هو وقبيله من حيث لا ترونهم} فلو كانوا لنا مرئيين وإن كانوا بقربنا ولا حائل بيننا وبينهم بحيث يوسوسون إلينا وكانوا كثافا لرأيناهم كما يرونا كما يرى بعضهم بعضا وفي علمنا بخلاف ذلك من حالنا وحالهم دليل على صحة ما قلناه قال وقد ذكر شيوخنا أن الرقة أحد الموانع من رؤية المرئيات بشرط ضعف البصر كالبعد واللطافة ولهذا قالوا أنه يجوز أن نراهم إذا قوى الله تعالى شعاع ابصارنا كما يجوز أن نراهم لو كثف الله تعالى أجسامهم وعلى هذا الوجه يرى المعاين الملائكة دون من يحضره ويرونهم الأنبياء جميعا ويرون الجن أيضا دون غيرهم."

(الباب الرابع ‌‌في بيان أجسام الجن، ص: 35، ط: مكتبة القرآن)

وفيه ايضاً:

"ولا شك ان الجن يتطورون ويتشكلون في صور الإنس والبهائم فيتصورون في صور الحيات والعقارب وفي صور الإبل والبقر والغنم والخيل والبغال والحمير وفي صور الطير وفي صور بني آدم كما أتى الشيطان قريشا في صورة سراقة بن مالكبن جعشم لما أرادوا الخروج إلى بدر قال الله تعالى {وإذ زين لهم الشيطان أعمالهم وقال لا غالب لكم اليوم من الناس وإني جار لكم فلما تراءت الفئتان نكص على عقبيه وقال إني بريء منكم إني أرى ما لا ترون إني أخاف الله والله شديد العقاب}وكما روى أنه تصور في صورة شيخ نجدي لما اجتمعوا بدار الندوة للتشاور في أمر الرسول صلى الله عليه وسلم هل يقتلوه أو يحبسوه أو يخرجوك كما قال الله تعالى {وإذ يمكر بك الذين كفروا ليثبتوك أو يقتلوك أو يخرجوك ويمكرون ويمكر الله والله خير الماكرين} وروى الترمذي والنسائي في اليوم والليلة من حديث صيفي مولى أبي السائب عن أبي سعيد الخدري يرفعه أن بالمدينة نفرا من الجن قد أسلموا فإذا رأيتم من هذه الهوام شيئا فأذنوه ثلاثا فإن بدا لكم فاقتلوه."

(الباب الخامس، ‌‌في بيان أصناف الجن،  ص: 40، ط: مكتبة القرآن)

تفسیر معارف القرآن میں ہے:

”ابلیس اصل میں جنات سے  مگر ابتداءمیں ملائکہ کے ساتھ اختلاط رکھتا تھا۔ فساد  اور خونریزی کی وجہ سے جب جنات کو زمین سے نکال کر جزائر اور جبال میں منتشر کیا گیا تو ابلیس ان میں بہت بڑا عالم اور عابد تھا۔ فساد اور خونریزی سے اپنا بے لوث ہو نا ظاہر کیا تو فرشتوں کی سفارش سے بچ گیا اور فرشتوں میں رہنے کی اجازت ہوئی مگر دل میں یہ طمع لگی رہی کہ کسی طرح زمین کی فرمانروائی مجھ کو مل جائے اس طمع میں خوب عبادت کرتا رہا ۔ جب حضرت آدم کی خلافت کا وقت آیا اور تمام ملائک کو سجدہ کا حکم ہوا تو ابلیس اس وقت نا امید ہوا اور استکبار اور حسد نے اس کو حق جل شانہ کے مقابلہ اور معارضہ پر آمادہ کیا اور ہمیشہ کے لیے ملعون و مطرود و رجیم و مردود ہوا ۔ ابلیس اگر چہ ملائکہ میں سے نہیں کما قال تعالی كان من الجن ( اور تھا ابلیس جنات میں سے) مگر خطاب سجود میں بتبعیہ ملائکہ بالا ولی داخل تھا۔“

(سورۃ البقرۃ،  ج: 2، ص: 125۔126، ط: معارف القرآن، از مفتی شفیع عثمانی رحمہ اللہ)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

”سوال:  زید کی بیوی بہت پریشان ہے، وہ اکثر کہا کرتی ہے کہ میں جنات میں سے ہوں ۔ کیا دراصل جنات اور شیطان انسانوں کو لگتے ہیں ؟ شریعت مطہرہ میں کہیں اس قسم کی کوئی چیز آئی ہے؟

جواب: انسان میں جن اور شیطان کا داخل ہو جانا ممکن ہے: " إن الشيطان يجرى من الإنسان مجرى الدم". الحديث، بخاري شريف- آكام المرجان في أحكام الجان میں اس کی تفصیل مروی ہے“

(کتاب الحظر والاباحۃ، ج: 24، ص: 25، ط: ادارۃ الفاروق)

وفیہ ایضاً:

”سوال: جن عورت میں آسکتا ہے یا نہیں اور بیل وغیرہ بن سکتا ہے یا نہیں؟

جواب : آ سکتا ہےبیل وغیرہ بھی بن سکتا ہے۔“

(کتاب الحظر والاباحۃ، ج: 24، ص: 26، ط: ادارۃ الفاروق)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144606101929

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں