کیا رمضان کے مسنون اعتکاف میں معتکف وضوکی نیت سے جاکرغسل کرسکتاہے ؟کیا مختصروقت میں جائزہے؟
معتکف پر اگر غسلِ جنابت واجب ہو گیا ہو تو اس کے لیے معتکف کا مسجد سے نکل کر غسل کرنا جائز بلکہ ضروری ہے ، البتہ ٹھنڈک کے لیے یا غسل مسنون (جمعہ کی نماز کے لیے غسل) کی نیت سے جانا معتکف کے لیے جائز نہیں، البتہ یہ تدبیر اختیار کی جاسکتی ہے کہ جب پیشاب / پاخانہ کا تقاضا ہو تو بول و براز سے فارغ ہوکر دو چار لوٹے بدن پر ڈال لے، جتنی دیر میں وضو ہوتا ہے، اس سے بھی کم وقت میں بدن پر پانی ڈال کر آجائے، اور اس کو معمول نہ بنائے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(وحرم عليه) أي على المعتكف اعتكافا واجبا أما النفل فله الخروج .........(الخروج إلا لحاجة الإنسان) طبيعية كبول وغائط وغسل لو احتلم ولا يمكنه الاغتسال في المسجد كذا في النهر."
(کتاب الصوم ، باب الاعتکاف جلد 2،ص : 444 ، ط : دار الفکر)
حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح میں ہے:
"أو حاجة طبيعية" أي يدعو إليها طبع الإنسان ولو ذهب بعد أن خرج إليها لعيادة مريض أو صلاة جنازة من غير أن يكون لذلك قصدا جاز بخلاف ما إذا خرج لحاجة الإنسان ومكث بعد فراغه فإنه ينتقض اعتكافه عند الإمام بحر "واغتسال من جنابة باحتلام" أما جناية الوطء فمفسدة وفيه أن الغسل من الحوائج الشرعية ولعل عدم إياه من الطبيعية باعتبار سببه".
(کتاب الصوم،باب الاعتکاف،ص،702،ط،دارالکتب العلمیہ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144609101737
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن