بیوی غسل کے بعد اپنے بال تولیے سے جھٹک رہی تھی، میں نے مزاح میں گنتی شروع کردی ،1،2،3کہنے کے بعد میرے دل میں طلاق کا وسوسہ آ یا ،زبان سے طلاق کے الفظ ادا نہیں کیے ،اس سے نکاح میں فرق تو نہیں ہو ا ،مجھے وسوسہ بہت آ تے ہیں۔
صورتِ مسئولہ میں سائل نے زبان سے طلاق نہیں دی ہے۔اس لیے طلاق واقع نہیں ہوئی۔ وسوسوں سے طلاق نہیں ہوتی، سائل اور اس کی بیوی کا نکاح بدستور برقرار ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"وركنه لفظ مخصوص.
(قوله: وركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالة على معنى الطلاق من صريح أو كناية فخرج الفسوخ على ما مر، وأراد اللفظ ولو حكما ليدخل الكتابة المستبينة وإشارة الأخرس و الإشارة إلى العدد بالأصابع في قوله أنت طالق هكذا كما سيأتي.و به ظهر أن من تشاجر مع زوجته فأعطاها ثلاثة أحجار ينوي الطلاق و لم يذكر لفظا لا صريحًا و لا كنايةً لايقع عليه كما أفتى به الخير الرملي وغيره، و كذا ما يفعله بعض سكان البوادي من أمرها بحلق شعرها لايقع به طلاق و إن نواه."
(کتاب الطلاق، ج، 3، ص: 230، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144608100777
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن