نماز میں قرات کرنا فرض ہے اور سوہ الفاتحہ پڑھنا اور سورت کا پڑھنا واجب ہے، اب جو یہ کہا گیا ہے کہ قرات کرنا فرض ہے، اس سے کون سی قراء ت مراد ہے؟
صورت مسئولہ میں "فاقْرَءُوْا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ" کی آیت کی وجہ سے پورے قرآن مجید میں سے کہیں سے بھی کم ازکم ایک آیت پڑھنا فرض ہے خواہ وہ آیت بڑی ہو یا چھوٹی ہو ،اس کی تلاوت کرنے سے فرض ادا ہو جائے گا اور نمازبھی ہو جائے گی ، مگر شرط یہ ہے کہ کم ازکم دو لفظوں سے مرکب ہوجیسے "ثم نظر"اوراگرایک ہی لفظ ہوجیسے "مدھامتان" یا ایک ہی حرف ہوجیسے"ص" تو اس سے فرض ادا نہیں ہو گا اور نماز بھی نہیں ہو گی اور" لا صلاۃ الا بفاتحۃ الکتاب"کی وجہ سے سورۃ فاتحہ واجب ہے۔
فتا وی شامي ميں هے :
"مَمبحث القراءة (قوله ومنها القراءة) أي قراءة آية من القرآن، وهي فرض عملي في جميع ركعات النفل والوتر وفي ركعتين من الفرض كما سيأتي متنا في باب الوتر والنوافل. وأما تعيين القراءة في الأوليين من الفرض فهو واجب، وقيل سنة لا فرض كما سنحققه في الواجبات، وأما قراءة الفاتحة والسورة أو ثلاث آيات فهي واجبة أيضا۔"
(ج:1،ص:446،باب صفۃالصلاۃ،ط: سعید)
فتح القدیر میں ہے:
"ثم عنده لو قرأ آية هي كلمات أو كلمتان نحو {فقتل كيف قدر} [المدثر: 19] أو {ثم نظر} [المدثر: 21] جازت بلا خلاف بين المشايخ، أما لو كانت كلمة اسما أو حرفا نحو: مدهامتان ص ق ن فإن هذه آيات عند بعض القراء اختلف فيه على قوله، والأصح أنه لا يجوز لأنه يسمى عادا لا قارئا وكون نحو ص حرفا غلط، بل الحرف مسمى ذلك وهو ليس المقروء، والمقروء هو الاسم صاد كلمة، فالصواب في التقسيم أن يقال هي كلمتان أو كلمة، ولو قرأ نصف آية طويلة مثل آية الكرسي والمداينة قيل لا يجوز لعدم الآية، وعامتهم على الجواز لأنه يزيد على ثلاث قصار، وتعيين الآية ليصير قارئا عرفا وهو بذلك كذلك، أما الكراهة فثابتة ما لم يقرأ الواجب إلا فيما بعد الأوليين من الفرض، ولو قرأ نصف آية مرتين أو كرر كلمة مرارا حتى بلغ قدر آية لا يجوز۔"
(332/1، فصل فی القراءۃ،ط:دار الفكر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144307100482
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن