بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا بیٹھ کر نماز پڑھنا جائز ہے؟


سوال

کیا بیٹھ کر نماز پڑھ سکتے ہیں؟

جواب

فرض، واجب  اور فجر کی سنت  میں قیام ضروری ہے۔ اور ایک روایت کے مطابق دیگر سننِ  مؤکدہ  نمازیں بھی کھڑے ہو کر پڑھناضروری ہے۔ عذر ومجبوری  کے بغیر فرض،  واجب  اور  فجر کی سنتیں بیٹھ کر پڑھنے سے ادائیگی ذمہ سے ساقط نہیں ہوتی، البتہ اگر عذر یا بیماری کی وجہ سے کھڑے ہو کر نماز ادا کرنے کی قدرت  نہ ہو تو بیٹھ کر  پڑھنے سے نماز ادا ہو جائے گی۔  البتہ بیماری  ایسی ہے کہ اس کے با وجود کھڑے ہو کر نمازاد اکرنے کی طاقت  ہو تو مذکورہ نمازیں بیٹھ کرنماز  پڑھنے سے نماز  نہیں ہو گی ۔  اس صورت میں جو نماز بیٹھ کر اد ا کی س کو دوبارہ کھڑے ہو کرپڑھنالا زم ہو گا۔

فجر کے علاوہ دیگر سنن مؤکدہ  بغیر عذر کے بیٹھ کر پڑھنے سے ادا ہوجائیں گی، تاہم  بغیر عذر کے سنن مؤکدہ کو بیٹھ کر پڑھنا مکروہ تنزیہی ہے۔ جب کہ نفل نماز  عذرکے بغیر بھی بیٹھ   کرپڑھناجائزہے، البتہ کھڑے ہو کر نفل پڑھنے میں از روئے حدیث پور ا ثواب ملتا ہے، اور بیٹھ کر پڑھنے کی صورت میں آدھا ثواب ملتا ہے۔

رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:

ومنها القيام) ... (في فرض) وملحق به كنذر وسنة فجر في الأصح (القادر عليه) وعلى السجود.

(قوله وسنة فجر في الأصح) أما عن القول بوجوبها فظاهر، وأما على القول بسنیتها فمراعاة للقول بالوجوب. ونقل في مراقي الفلاح أن الأصح جوازها من قعود ط.

أقول: لكن في الحلية عند الكلام على صلاة التراویح لو صلى التراويح قاعدا بلا عذر، قیل لا تجوز قياسا على سنةالفجر فإن كلا منها سنة مؤكدة وسنة الفجر لا تجوز قاعدا من غير عذر بإجماعهم كما هو رواية الحسن عن أبي حنيفة كما صرح به في الخلاصة فكذا التراويح، وقیل يجوز والقياس على سنة الفجر غير تام فإن التراويح دونها في التأكيد فلا تجوز التسوية بينهما في ذلك: قال قاضي خان وهو الصحيح أهـ (قوله القادر عليه) فلو عجز عنه حقيقة وهو ظاهر أو حكما كما لو حصل له به ألم شديد أو خاف زيادة المرض وكالمسائل الآتية في قوله وقد يتحتم القعودالخ فإنه يسقط، وقد يسقط مع القدرة عليه فيما لو عجز عن السجود كما اقتصر عليه الشارح تبعا للبحر."

(كتاب الصلاة، فرائض الصلاة ١ / ٤٤٤ - ٤٤٥ ، ط:دار الفكر)

صحیح البخاری میں ہے:

"١١١٦ - حدثنا أبو معمر قال: حدثنا عبد الوارث قال: حدثنا حسين المعلم، عن عبد الله بن بريدة، أن عمران بن حصين وكان رجلا مبسورا وقال أبو معمر مرة عن عمران قال: سألت النبي صلى الله عليه وسلم عن صلاة الرجل وهو قاعد، فقال:"من صلى قائما فهو أفضل، ومن صلى قاعدا قله نصف أجر القائم، ومن صلى نائما فله نصف أجرالقاعد."

قال أبو عبد الله: نائما عندي، مضطجعا ها هنا."

ترجمہ : حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیٹھ کر نماز پڑ ھنے کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ کھڑے ہو کر نماز پڑھنا افضل ہے، لیکن اگر کوئی بیٹھ کر نماز پڑھے تو کھڑے ہو کر پڑھنے والے سے اسے آدھا ثواب ملے گااور لیٹ کر پڑ ھنے والے کو بیٹھ کر پڑھنے والے سے آدھا ثواب ملے گا۔ "

امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : حدیث کے الفاظ میں« نائم » «مضطجع »کے معنی میں ہے یعنی لیٹ کر نماز پڑ ھنے والا۔

(أبواب تقصير الصلاة، باب صلاة القاعد بالإيماء ٢٠ / ٤٧، ط: السلطانية، بالمطبعة الكبرى الأميرية، ببولاق مصر )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509102055

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں