بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

KOI کمپنی میں جمع کرائی گئی رقم حاصل کرنے کی صورت


سوال

میں نے پہلے بھی فتویٰ لیا تھا، جس کا نمبر یہ ہے:144608100408

اب  پہلےسابقہ فتویٰ کاسوال اورجواب ذکر کیا جاتا ہے، اس کےبعد میں اگلاسوال ذکر کیا جائے گا۔

انٹرنیٹ پر KOI کے نام سے ایک  کمپنی ہے، اس میں آن لائن لوگوں کو بھرتی کیا جاتا ہے، اِس کمپنی کا  کام یہ ہے کہ دنیا بھر میں جو مختلف کمپنیز  اور ایپس ہیں KOI ان سے اس بات کا کانٹریکٹ لیتی ہے کہ ہم آپ کی کمپنی کو لوگوں میں متعارف کروائیں گے اور اس کی تشہیر کریں گے اور آپ کے ڈاؤن لوڈرز بڑھائیں گے، اس کے لیے وہ ان کمپنیز سے پیسہ لیتی ہے، اور پھر لوگوں کو آن لائن بھرتی کرتی ہے اور آن لائن بھرتی کرنے والوں سے بھی وہ کچھ رقم انویسٹمنٹ کے طور پر لیتی ہے، جیسے: سب سے چھوٹی انویسٹمنٹ 6400 روپے کی ہے اور اس کے بعد اس سے بڑی، پھر اس سے بھی بڑی انوسمنٹ کی جاتی ہے، اور سب سے آخر میں 20,000,000 تک کی انویسٹمنٹ ہے، سب سے چھوٹی انویسٹمنٹ میں روزانہ کے چار ٹاسک دیے جاتے ہیں کہ آپ کو چار مختلف ایپس کو ڈاؤن لوڈ کرنا ہے، ایک ایپ کے 50 روپے ملیں گے، تو ایک دن کے 200 روپے بن جاتے ہیں، اس طرح جب آپ کے اکاؤنٹ میں کچھ رقم جمع ہو جائے تو آپ اس کو جب چاہیں نکال سکتے ہیں، اور اس انویسٹمنٹ کی مدت ایک سال ہے ایک سال کے بعد جو رقم آپ نے ڈپازٹ کروائی تھی وہ رقم آپ کو واپس مل جائے گی، اور جو آپ نے منافع کمایا ہوگا وہ آپ کبھی بھی پورے سال میں نکال سکتے ہیں۔

اور کمپنی کے مطابق وہ لوگوں سے انویسٹمنٹ اس لیے لیتی ہیں تاکہ لوگ پوری توجہ سے کام کریں، اور جو کنٹریکٹ انہوں نے دوسری کمپنیز کے ساتھ سائن کیے ہیں اس میں کسی بھی کسی قسم کی رکاوٹ نہ پڑے، KOI کمپنی کے مالکان کا کہنا ہے کہ اگر ہم لوگوں سے انویسٹمنٹ نہ لیں تو لوگ جو مرضی آئے کریں گے اور کمپنی کے رولز کی نافرمانی کریں گے، اس لیے ان سے پیسے لینا ضروری ہوتا ہے، تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ لوگ اپنا کام پورے دل سے اور توجہ سے کریں۔

اب اس کمپنی میں رجسٹرڈ ہوکر کمائی جائز ہے یا نہیں؟

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ کمپنی  سے کمانے میں درج ذیل  شرعی خرابیاں پائی جاتی ہیں ،جس کی وجہ سے اس میں رجسٹرڈ ہوکر کمانا جائز نہیں  ہوگا:

1۔کمپنی کا ٹاسک(کام)  مکمل کرنے پر معاوضہ ملنا عقد اجارہ ہے،  لیکن اس کے لیے ابتدائی طور پر 6400  روپے جمع کرانے کی شرط لگانا ناجائز ہے، کیوں کہ اگر یہ رقم شرکت کے طور پر جمع کرائی جاتی ہے تو یہاں پر  شرکت اور اجارہ دونوں جمع ہوجائیں گے، جب کہ شریک کو اجارے پر رکھنا درست نہیں، اور اگر سیکورٹی ڈپازٹ کے طور پر جمع کرائی جاتی ہے تو یہاں املاک نہ ہونے کی وجہ سے سیکورٹی ڈپازٹ کے طور پر رقم جمع کرانے کی شرط  درست نہیں۔

2-  ٹاسک کرنایہ ایک بے مقصد اور بے فائدہ عمل ہے؛ کیوں کہ مسئولہ صورت میں اشیا کی خریداری مقصود نہیں ہوتی، صرف متعدد کمپنیوں کے ڈاؤن لوڈز سے افراد کے ذریعے بڑھانا مطلوب ہوتا ہے، جن کا مقصد اشیاء کی خریداری نہیں ہوتا، پس شریعت میں بے مقصد اور بے فائدہ عمل پر اجارہ درست نہیں ؛ کیوں کہ صحت اجارہ کے لیے معقود علیہ کا منفعت مقصودہ ہونا ضروری ہے۔

3۔   اگر ان اشتہارات میں جان دار کی تصاویر یا خواتین کی تصاویر بھی ہوں تو یہ اور زیادہ شدید گناہ  ہے۔

4۔   عام طور پر اس نوع کی کمپنی سے مقصود  وڈیو ،ایپ،پروڈکٹ  وغیرہ کی تشہیر ہوتی ہے ،تاکہ خریدار / ناظرین کے اعداد و شمار بڑھ جائیں اور  دیگر لوگوں کو راغب کیا جائے حالاں کہ  اس طرح کرنے والے حقیقی خریدار  نہیں ہوتے،کمپنی / ایپ   والے پیسے دے کر جعلی تشہیر کرواتے ہیں جو کہ دھوکے پر مبنی ہے ۔

  مذکورہ کمپنی سے رقم حاصل کرنا چوں کہ شرعاً جائز نہیں، لہذا  اس طرح کی کمپنی  میں رجسٹرڈ ہونا یا اس سے پیسہ کمانا جائز نہیں ۔

اب سوال یہ ہے کہ اس KOI کمپنی میں جو پیسے جمع کروائے گئے ہیں کیا صرف جب تک کام کیا جا سکتا ہے جب تک اپنے جمع کرائے گئے پیسے پورے نہ ہو جائیں یا وہ پیسے چھوڑ دینا چاہیے؟ اب لوگوں نے صرف 6400 ہی نہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ بھی جمع کرائے  ہوئے ہیں تو ان کو چھوڑنا اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ اس کا کیا حل کیا جائے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جمع کرائی گئی رقم اگر سال کے بعد واپس ملتی ہے جیسا کہ اصل سوال میں لکھا گیا ہے کہ ”  ایک سال کے بعد جو رقم آپ نے ڈپازٹ کروائی تھی وہ رقم آپ کو واپس مل جائے گی “  تو سال کے آخر تک انتظار کیا جائے، البتہ اگر سال کے بعد بھی واپس نہیں ملتی، اور اپنی جمع کرائی گئی رقم حاصل کرنے کا کوئی اور طریقہ بھی نہیں ہے تو پھر اپنی رقم حاصل کرنے تک کام کرنے کی گنجائش ہوگی، تاہم جو کمائی حاصل ہو، وہ حلال نہ ہوگی، اسے م ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کرنا ضروری  ہوگا۔

تفسیر قرطبی میں ہے:

"قوله تعالى:" وإن تبتم فلكم رؤس أموالكم" الآية. روى أبو داود عن سليمان بن عمرو عن أبيه قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول في حجة الوداع:" ألا إن كل ربا من ربا الجاهلية. موضوع فلكم رؤس أموالكم لا تظلمون ولا تظلمون" وذكر الحديث. فردهم تعالى مع التوبة إلى رؤوس أموالهم وقال لهم:" لا تظلمون" في أخذ الربا" ولا تظلمون" في أن يتمسك بشيء من رؤوس أموالكم فتذهب أموالكم."

(سورة البقرة (2): الآيات 275 الى 279، ج:3، ص:365، ط:دار الكتب المصرية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

" وأطلق الشافعي أخذ خلاف الجنس للمجانسة في المالية. قال في المجتبى وهو أوسع فيعمل به عند الضرورة

(قوله وأطلق الشافعي أخذ خلاف الجنس) أي من النقود أو العروض؛ لأن النقود يجوز أخذها عندنا على ما قررناه آنفا. قال القهستاني: وفيه إيماء إلى أن له أن يأخذ من خلاف جنسه عند المجانسة في المالية، وهذا أوسع فيجوز الأخذ به وإن لم يكن مذهبنا، فإن الإنسان يعذر في العمل به عند الضرورة كما في الزاهدي. اهـ. قلت: وهذا ما قالوا إنه لا مستند له، لكن رأيت في شرح نظم الكنز للمقدسي من كتاب الحجر. قال: ونقل جد والدي لأمه الجمال الأشقر في شرحه للقدوري ‌أن ‌عدم ‌جواز ‌الأخذ من خلاف الجنس كان في زمانهم لمطاوعتهم في الحقوق. والفتوى اليوم على جواز الأخذ عند القدرة من أي مال كان لا سيما في ديارنا لمداومتهم للعقوق."

(کتاب السرقة، 95/4، ط:سعید)

وفيه ايضاّ:

"قال الحموي في شرح الكنز نقلا عن العلامة المقدسي عن جده الأشفر عن شرح القدوري للأخصب: ‌إن ‌عدم ‌جواز ‌الأخذ من خلاف الجنس كان في زمانهم لمطاوعتهم في الحقوق، والفتوى اليوم على جواز الأخذ عند القدرة من أي مال كان لا سيما في ديارنا لمداومتهم."

(كتاب الحجر، 151/6، سعید)

کفایت المفتی میں ہے:

"ہم احناف کا اصل مذہب یہ ہے کہ مدیون کے مال سے دین کے علاوہ کسی دوسری جنس میں دین وصول کر لینا جائز نہیں ہے لیکن علامہ حموی نے شرح کنز میں مقدسى عن جده الاشفر عن شرح القدورى للأخصب کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ خلاف جنس قرض وصول کر لینے کا عدم جواز متقدمین کے زمانے میں تھا لیکن آج کل قول مفتی بہ یہ ہے کہ مدیون کا جس قسم کا مال قابو میں آجائے اس میں سے قرضہ وصول کر لیناجائزہے۔"

(کتاب الدیون، 153/8، ط:دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144608101746

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں