بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

کون سے عیوب قربانی کے لیے مانع ہیں؟


سوال

جانور میں کس طرح کے عیوب مانع قربانی ہیں؟

جواب

مندرجہ ذیل عیب دار جانوروں کی قربانی درست نہیں ہے :

  • ایسامجنون جانورجو جنون کی وجہ سے چارہ نہ کھاتا ہو۔
  • ایساخارش زدہ جانور جو خارش کی وجہ سے بے حد کمزور ہوگیا ہو۔
  • ایسا جانور جو دیکھ نہ سکتا ہو۔
  • ایسا جانور جو بهت هي لاغر ہو۔
  • ایسا جانور جو قربان گاہ کی طرف خود نہ چل سکتا ہو۔
  • ایسا جانور  جس کا ایک تہائی کان، یا دم، یا بینائی، یا چکتی کا ایک تہائی سے زیادہ حصہ جا چکا ہو۔
  • ایسا جانور جس کے پیدائشی کان نہ ہوں۔
  • ایسا جانور جس کے تھنوں کا سرا کٹا ہوا ہو۔
  • ایسا جانور جس کے تھن خشک ہوگئے ہوں، (گائے کے دو تھن خشک ہوچکے ہوں اور بکری یا ایک تھن خشک ہوجائے تو قربانی درست نہیں ہوگی)۔
  • ایسا جانور جس کی ناک کٹی ہوئی ہو۔
  • ایسا جانور جو خنثی ہو۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6 / 323):

"ويضحي بالجماء والخصي والثولاء) أي المجنونة (إذا لم يمنعها من السوم والرعي) (، وإن منعها لا) تجوز التضحية بها (والجرباء السمينة) فلو مهزولة لم يجز، لأن الجرب في اللحم نقص (لا) (بالعمياء والعوراء والعجفاء) المهزولة التي لا مخ في عظامها (والعرجاء التي لا تمشي إلى المنسك) أي المذبح، والمريضة البين مرضها (ومقطوع أكثر الأذن أو الذنب أو العين) أي التي ذهب أكثر نور عينها فأطلق القطع على الذهاب مجازا، وإنما يعرف بتقريب العلف (أو) أكثر (الألية) لأن للأكثر حكم الكل بقاء وذهابا فيكفي بقاء الأكثر، وعليه الفتوى مجتبى (ولا) (بالهتماء) التي لا أسنان لها، ويكفي بقاء الأكثر، وقيل ما تعتلف به (والسكاء) التي لا أذن لها خلقة فلو لها أذن صغيرة خلقة أجزأت زيلعي (والجذاء) مقطوعة رءوس ضرعها أو يابستها، ولا الجدعاء: مقطوعة الأنف، ولا المصرمة أطباؤها: وهي التي عولجت حتى انقطع لبنها، ولا التي لا ألية لها خلقة مجتبى، ولا بالخنثى لأن لحمها لا ينضج شرح وهبانية، وتمامه فيه (و) لا (الجلالة) التي تأكل العذرة ولا تأكل غيرها."

فقط والله اعلم



فتوی نمبر : 144112200106

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں